ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”دیکھو یہ بات اس طرح نہیں ہے!“
”نہیں، اس طرح نہیں ہوتا!“
”تمہیں علم نہیں!“
”اصل میں ہوتا کچھ یوں ہے!“
”حقیقت کا مجھے پتہ ہے!“
ہوا کچھ یوں۔
”نہیں، اصل واقعہ مختلف ہے!“
”سمجھنے کی کوشش کرو۔“
”تم کچھ نہیں جانتیں“
” تمہیں کیا پتہ، دنیا میں کیا ہوتا ہے“
احباب کی محفل ہو یا شادی کی کوئی تقریب، سرکاری میٹنگ ہو یا کوئی علمی بحث، اس طرح کے جملے آپ نے سن ہی رکھے ہوں گے۔ منظر کچھ یوں ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی صاحب کسی خاتون کو چپ کروانے کی کوشش کرتے ہوئے ان ڈائیلاگز کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
زیر لب ان الفاظ کا معنی کچھ یوں ہوتا ہے،
”بی بی تم چپ کرو، تمہیں کچھ نہیں علم کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ تم پہنچ تو گئی ہو یہاں کسی نہ کس طرح لیکن تم سے تو صرف یہی پوچھا جا سکتا ہے کہ بھنڈی کیسے پکائی جاتی ہے یا بچوں کے پوتڑے کیسے دھلتے ہیں۔ باقی رہی اس موضوع پہ گفتگو تو تمہیں ہم سمجھائے دیتے ہیں کہ اصل میں یہ کیا ہے؟ اور اس پہ کیسے کام کیا جا سکتا ہے؟“
اب چاہے سامنے بیٹھی بی بی اس موضوع پہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لئے بیٹھی ہو یا برسہا برس کا تجربہ رکھتی ہو یا زندگی کی کٹھنائیاں جان پہ جھیل کے بیٹھی ہو، وہ مرد کا درد سر نہیں۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی معلومات اور ذہانت کے سامنے یہ بے چاری عورت کیا بیچتی ہے؟ عورت کی عقل مختصر ہونے میں کسی کو شک ہے کیا؟ عورت مرد کے اس خود ساختہ زعم کا اب کیا علاج کرے سوائے ترس کھانے کے!
شومئی قسمت اگر بات سمجھانے والا اتفاق سے شوہر بھی ہو تو کچھ اس طرح کی آوازیں کان میں پڑتی ہیں،
”کم عقل عورت۔“
”تمہیں کیا پتہ، یہ کام کیسے کرتے ہیں؟“
تمہیں جن باتوں کا علم نہیں، اس کے لئے اپنی زبان کو تکلیف مت دیا کرو ”
دنیا بھر کی خواتین کے پاس مردوں کے اس رویے کے وجود کا تجربہ تو تھا مکر اسے کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔ پھر نہ جانے کیسے، معجزہ رونما ہوا یا کچھ اور لیکن ایک لفظ نے جنم لے ہی لیا جسے mansplaining کا نام دیا گیا۔
نیویارک ٹائمز نے دو ہزار دس میں اسے ورڈ آف دی ائر کا نام دیا۔ دو ہزار بارہ میں امریکن ڈائیلیکٹ سوسائٹی نے اسے اس برس کا سب سے بڑا تخلیقی لفظ کہا اور دو ہزار چودہ میں آکسفورڈ ڈکشنری نے اسے اپنے ذخیرہ الفاظ میں شامل کر لیا۔
اس لفظ کی بنیاد مرد کا وہی رویہ تھا جس کے مطابق وہ یہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ وہ عورت کو دنیا کے بارے میں باخبر کرتے ہوئے مختلف باتیں سمجھائے۔ اس کی روایتی سوچ اسے یہ باور نہیں ہونے دیتی کہ سامنے بیٹھی عورت کا علم اس سے زیادہ ہو سکتا ہے یا اس کی رائے اس موضوع پہ مستند ہو سکتی ہے۔
بنیادی طور پہ مین سپلیننگ لفظ explain سے نکلا ہے لیکن اس کا ظہور ایک امریکی مصنفہ ربیکا سولنٹ کے مضمون سے ہوا۔ انہوں نے ایک واقعہ لکھا کہ ایک محفل میں وہ حال ہی میں پبلش ہونے والی مختلف کتابوں پہ بات کر رہی تھیں۔ وہیں موجود ایک صاحب نے جو انہیں جانتے نہیں تھے، بات کاٹتے ہوئے مصنفہ کی حالیہ کتاب پہ اپنی رائے دینا شروع کی اور ساتھ میں استہزائیہ انداز میں پوچھا کہ کیا انہوں نے یہ کتاب پڑھی بھی ہے؟
اگر وہ مصنفہ کی بات سننے کا حوصلہ رکھتے تو یقیناً جان جاتے کہ بات کرنے والی ہی اصل میں اس کتاب کی مصنفہ ہے جس کے متعلق وہ اپنا علم جھاڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ایک عورت کے منہ سے تازہ ترین اور مشہور کتاب پہ اظہار رائے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک عام عورت اتنی باخبر ہو کہ بازار میں آنے والی نئی کتاب فوراً پڑھ ڈالے۔ عورت کے لئے اتنی برداشت مرد کے پاس کہاں؟
”میرے باس نے مجھ بتایا کہ میں اپنے نام کا تلفظ ٹھیک سے ادا نہیں کرتی۔ میں اس وقت عمر کے پینتالیس برس مکمل کر چکی تھی“
”ایک ساتھی نے ایک دن مجھے سمجھایا کہ اگر میں زندگی میں کامیاب ہونا چاہتی ہوں تو مجھے مختلف کھیلوں میں حصہ لینا چاہیے۔ میں ماضی میں ایتھلیٹ رہ چکی ہوں“
”میں نے جس مضمون میں پی ایچ ڈی کی ہے، اسی کے متعلق مرد کو لیگ مجھے سمجھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں ہوتا“
”میں کئی برسوں سے ڈگری یافتہ لائیبریرین ہوں اور اب بھی مجھے بتایا جاتا ہے کہ کیٹیلاگ سے مصنفوں کے نام کیسے ڈھونڈنے ہیں“
” مجھے اکثر شوہر سے سننے کو ملتا ہے کہ زچگی کا عمل ایسے ہی ہے جیسے کوئی باتھ روم جا کر فارغ ہو لے“
”ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اگر میں کوئی مشغلہ اختیار کر لوں، تو میری ماہواری کا درد جاتا رہے گا“
”ایک مرد کے مطابق اس کے پیٹ کا آپریشن زچگی کے عمل سے کہیں زیادہ برا تھا“
”میرے باس کے مطابق ماہواری میں اتنی درد نہیں ہوتی کہ انجیکشن کی ضرورت پڑ جائے“
”میرے شوہر مجھے مینو پاز کے وہ اثرات بتا رہے تھے جنہیں میں پچھلے تین برس سے جھیل رہی تھی“
”نئی کار خریدتے ہوئے میں جب بھی کوئی سوال پوچھتی، سیلزمین اس کا جواب میرے شوہر کو دیتا۔ اس کے خیال میں میں یہ باتیں نہیں سمجھ سکتی تھی۔ میں پیشے کے لحاظ سے آٹو موبائل انجینئر ہوں“
”میں سائیکٹیری پڑھاتی ہوں اور اس وقت حیران رہ جاتی ہوں جب کوئی مجھے سمجھاتا ہے کہ یادداشت جانے کا عمل کیسے شروع ہوتا ہے“
صاحبان دانش، جان لیجیے کہ ”مین سپلیننگ“ پدرسری معاشرے کا وہ کند ہتھیار ہے جو عورت کی صلاحیتوں، تجربے، علم اور رائے کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ پدرسری کلچر کی ان کہی کہانی کا بدصورت رویہ جو عورت کو کمتر اور بے وقوف سمجھتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ عورت کسی بھی صورت مرد کی دانش اور فہم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر