ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک فلمی سین ہےکہ ایک بہت بڑےڈاکو گبر سنگھ نےاپنے ڈاکووں کے ایک گروپ کو ایک گاوں کو لوٹنےکے لیے بھیجا مگر وہ سب بری طرح مار کھا کے واپس آ گئے ۔یہ گبر سنگھ کی توہین تھی کہ اس کے ساتھیوں کے ساتھ ایسا برا سلوک ہوا۔گبر سنگھ نے اپنے وفادار سامبھا سے پوچھا ، ارے او سامبھا کتنے آدمی تھے؟ زخمی سامبھا نے جواب دیا سردار دو تھے تو سردار اس پر چیخ اٹھا کہ دو بندوں سے مار کھاکر آگئے ۔اس فلمی سین میں جئے اور ویرو کی جوڑی نے جو کچھ ڈاکووں کے ساتھ کیا اس سے کہیں زیادہ برا برتاو بابر اور رضوان کی جوڑی نے انڈٰین کرکٹ ٹیم کے ساتھ کیا۔انڈین ابھی تک حیران ہیں کہ ان کے ساتھ آخر ہوا کیا وہ ہار کیسے گئے اور یہی حیرت سرحد کے اس پار بھی ہے کہ آخر ہوا کیا اور ہم جیت کیسے گئے ۔اسی حیرت کی کیفیت میں بہرحال ہم شاندار طریقے سےجیت چکے ہیں ۔اس ضمن میں کھلاڑیوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔یہ ایک ایسی جیت تھی جس پر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
اور خوشی ہونی بھی چاہیے کہ روایتی حریف سے جیتنا بلاشبہ ایک خوش کن مرحلہ ہے ۔کھیل تو کھیل ہوتے ہیں مگر جب مقابلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہوتو دونوں طرف کی عوام کا جوش اور جذبہ دیدنی ہوتا ہے ۔گوکہ کرکٹ دونوں ملکوں کا قومی کھیل نہیں ہے مگر اس کھیل کا جنون ان ممالک میں قومی کھیل سےکہیں زیادہ ہے۔دونوں طرف کے لوگ اس کھیل کے سحر میں گرفتار ہیں اور جب پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے ہوں تو دونوں ٹیمیں تو کیا عوام بھی ہارماننے کو تیار نہیں ہوتی ایسے میں دونوں طرف کے کھلاڑی شدید دباو میں کھیلتےہیں۔مگر اس بار گرین شرٹس نے پریشر نہیں لیا اور نتیجہ یہ کہ ایک شاندار فتح ان کا مقدر بنی ۔اسی میچ کے دوران قومی ٹی وی نے خبردی کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال مستعفی ہوگئے ہیں اور ان کا استعفیٰ گورنر نے منظور بھی کرلیا ہے بعدازاں اس کی تصدیق جام کمال نے ایک ٹوئیٹ کے زریعے بھی کردی۔حیرت یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کے میچ کے دوران جام کمال آوٹ ہوگئے۔
بلوچستان کا کافی دنوں سے چلنے والا سیاسی بحران اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔سب کہہ رہے تھے کہ سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے ، چیئرمین سینٹ کی سفارت کاری بھی کام نہ آئی۔جام کمال ناراض اراکین کا مذاق اڑاتے رہے کہ یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں ان کی تعداد پوری نہیں ہے ،یہ طاقت کے حصول کے لیئے جمع ہیں ، تحریک عدم اعتماد کا سامنا کروں گا جیسے بہت سے بیانات دئیے۔ایسے بیانات جو ہر حاکم اقتدار کے اختتامی دنوں میں دیتا ہے۔جام کا جانا طے ہوگیا تھا اب یہ الگ بات کہ جام میخوار کے ہاتھوں سے گرا یا ساقی کی لاپراوہی سے ہر دوصورتوں میں نقصان جام کا ہوا۔اب اگر جام کو یہ غلط فہمی تھی کہ اس کے بغیر میخانہ نہیں چلنے والا تو شائد جام میخواروں کی طبعیت سے ناآشنا ہے۔یہ تو وہ بلانوش ہیں کہ ہاتھوں سے کٹوروں کا کام لے کرمیخانہ ہی خشک کردیں۔
مروجہ سیاست میں بلوچستان حکومت سےمتعلق کہا جاتا ہےکہ یہاں پر اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔تو پھر جام سرکار کاجانا کیا مقتدر حلقوں کی منشا کے مطابق ہوا ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر کس کو راضی کرنے کےلیے بلوچستان کی حکومت کی قربانی دی گئی ہے ۔بالفرض اگر یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہے تو پھر اس کا اگلہ مرحلہ کیا ہوگا۔کس عہدے یا حکومت کی تبدیلی کا نمبر آ گیا ہے۔کیا جام کی تبدیلی کپتان کو قبول ہوگئی اورپھر کیا نئی حکومت کو کپتان کی آشیر باد حاصل ہوگی یا نہیں ہوگی یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آنے والے دنوں میں ہر کوئی جاننا چاہے گا۔واقفان حال تو کب سے کہہ رہے تھے کہ تبدیلی کا آغاز بلوچستان سے ہوگا اور ایسا ہی ہوا اور وہاں پر تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ گئی ہے۔اگر کسی طے شدہ فارمولے کے تحت یہ تبدیلی شروع ہوئی ہے تو کپتان کو علم ہونا چاہیے کہ یہ تبدیلی دعاوں اور مناجاتوں سے رکنے والی نہیں ہے اس کے لیے واپس آکر عملی طورپر اقدامات کرنے ہوں گے۔واپس آکر نا صرف جوتے پہننے ہوں گے بلکہ جوتوں کے تسمے کس کر باندھ کے سیاست کے پرخار راستوں پر چلنا ہوگا
ان پرخار راستوں میں ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اور واپسی پر سب سے پہلا امتحان تو ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا ہے ۔پہلے بھی دست بستہ عرض کی ہے کہ ہوگا وہی جو ٹوئیٹ میں لکھا گیا ہے ۔یہ محکمانہ ٹرانسفر پوسٹنگ ہیں یہاں خواہشات پر نہیں تجربے اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔جو کہا جارہا ہے اس پر عمل ہوجائے تو بہتر ہے اور اگر یہاں پر بھی سیاسی بنیادوں پر اور پسند نا پسند پر فیصلے ہونے لگ جائیں تو اس محکمے کا حشر بھی ملک کے دیگر محکموں جیسا ہوگا۔آئی جی اور دیگر انتظامی افسران کی بار بار تبدیلی نے عادتیں خراب کردی ہیں۔پولیس اور فوج میں فرق کو جاننا بہت ضروری ہے اگر نہیں سمجھے تو ہاتھ کنگن کو آر سی کیا بہت جلد سمجھ آجائے گی۔
قصہ مختصر پاکستان اور انڈیا کے میچ کا تذکرہ چل رہا تھا جس کے شور میں جام کمال آوٹ ہوگئے ۔یہ ٹورنامنٹ تو کافی دن چلنا ہے اور بہت سے اہم میچز کھیلے جانے ہیں کپتان کو فکر کرنی چاہیے اور معاملات کو سنبھالنا چاہیےیہ نا ہو کہ کسی اور اہم میچ کے دوران کپتان کا کوئی اور کھلاڑی جام کمال کی طرح آوٹ ہو جائے ۔وکٹیں اگر اسی طرح گرتی رہیں تو کوئی شک نہیں پاکستان کی جیت کے امکانات بڑھتے جائیں گے،جوش و خروش بڑھتا جائے گا اور ہر گرنے والی وکٹ پر عوام اسی طرح خوشی سے سڑکوں پر آکر دھمالیں ڈالے گی ۔
مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ