عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ کے مقابل ایک بہت بڑی قوت ہو تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ خوف کی سرحد کو عبور کر لیں، دل سے ڈر کو نکال لیں، دلیر ہو جائیں، اپنے مدمقابل کو ہیچ سمجھیں، اپنی طاقت پر بھروسا کریں، اپنے زور بازو پر اعتماد کریں۔ مجھے خوش گمانی ہے کہ پاکستانیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خوف کی اس سرحد کو اب عبور کر لیا ہے، اب پاکستان کے بائیس کروڑ عوام ڈر نہیں رہے بلکہ ڈٹ رہے ہیں۔ پاکستانی عوام نے اس محاذ پر فتح کیسے حاصل کی اس کو مثالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔
اس دور میں خوف کی حکمرانی برقرار کھنے کے لیے کیا کچھ کیا گیا، عدالتوں سے جس کے خلاف چاہا فیصلہ لیا گیا، سیاسی قائدین کو نا اہل کیا گیا، ان کے رفقائے کار کو بنا کسی ثبوت کے بھیڑ بکریوں کی طرح جیلوں میں دھکیلا گیا، چینلوں کو بندش اور جرمانے سے ڈرایا گیا، سوشل میڈیا پر گالیاں بکنے والے ٹرول تربیت دیے گئے، صحافیوں کو گولیاں ماری گئیں، کسی کو شمالی علاقہ جات بھیجا گیا، کسی کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی گئی، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو ڈرایا گیا دھمکایا گیا، غداری کے فتوے لگائے گئے، کفر کے الزامات لگائے گئے، نازیبا وڈیوز ریلیز کی گئیں، ٹویٹر اکاؤنٹس بند کروائے گئے، لوگوں کو نوکریوں سے نکلوایا گیا، روزگار کے تمام ذرائع بند کر دیے گئے، ٹی وی شوز میں بدتمیزیاں کی گئیں، سیاست دانوں کو گولیاں ماری گئیں، کسی کے منہ پر سیاہی پھینکی گئی، کسی پر ہیروئن کا کیس ڈال دیا گیا۔
یہ سب کام ہمارے سامنے ہوئے، ان سب کاموں کو مقصد بائیس کروڑ لوگوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔ لیکن آج دیکھیں تو ان میں سے کسی بھی حربے کا فائدہ نہیں ہوا۔ جن سیاست دانوں کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا وہ جیلوں سے نکل کر اور نڈر ہو گئے، جن صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی وہ پہلے سے زیادہ دلیری سے کلمہ حق کہنے کو تیار ہیں، جن کی نوکریاں ختم کی گئیں وہ بھی نوکریوں سے ماورا ہو کر اپنے کام میں جٹے ہوئے ہیں ؛ کسی نے یوٹیوب چینل کھول لیا، کوئی بلاگ لکھ رہا ہے اور کوئی ٹویٹر پر سچ بول رہا ہے۔ جن پر غداری کے فتوے لگائے گئے وہ سینے پر تمغے کی طرح یہ فتوے سجائے گھوم رہے ہیں۔ یہ سب چند سالوں میں ہی ہوا ہے اس سے پہلے ہم ایسے نہیں تھے۔
چند سینیئر صحافی دوست بتا رہے تھے کہ ایک وقت تھا جب اخبار میں ”آبپارہ“ کا لفظ لکھنے سے پہلے اجازتیں لینی پڑتی تھیں، ایک وقت تھا جب ”راولپنڈی“ کا لفظ لکھنے پر ایڈیٹر کانپنے لگتے تھے، پہلے لوگ اسٹیبلشمنٹ کو غیر جمہوری قوتیں کہتے تھے، پھر ادارے کا لفظ وضع ہوا پھر اسٹیبلشمنٹ کے لقب کا سہارا لیا گیا، پھر بات خلائی مخلوق تک پہنچی، بھوٹان کی فوج کا استعارہ بھی مستعمل رہا، پھر فوج کا لفظ استعمال کیا گیا اور اب یہ صورت حال ہے کہ لوگ جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر کھلے عام پھبتیاں کس رہے ہیں، انھیں اس ملک کی تباہی میں شریک جرم قرار دے رہے ہیں اور کسی کو کوئی خوف نہیں۔
نواز شریف جو پہلے خلائی مخلوق کا لفظ استعمال کرتے تھے، گوجرانوالہ کے جلسے سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام لے رہے ہیں۔ مریم نواز کھلے عام پریس کانفرنس میں جرنل فیض کا نام لے کر ان کے غیر آئینی کارنامے گنوا رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ یہ پریس کانفرنس میڈیا پر بھی چلتی ہے، سنسر بھی نہیں ہوتی اور کوئی قیامت بھی نہیں آتی، کوئی آسمان بھی نہیں گرتا۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ تھا ”جنرل فیض استعفی دو“ ۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ آئی ایس آئی چیف کے استعفی کا لوگ سرعام مطالبہ کر رہے ہوں، کسی کور کمانڈر کے خلاف پورا پاکستان ٹرینڈ بنا رہا ہو، یہ ٹرینڈ بنانے والے نہ دشمن کے ایجنٹ ہیں نہ غیر ملکی آلہ کار ہیں، نہ انھیں کہیں سے فنڈنگ آتی ہے، نہ انھیں گالیاں دینے والے ٹرولز کی طرح پیسے ملتے ہیں ؛ یہ پاکستانی ہیں، گلی کوچوں میں رہنے والے پاکستانی، عام پاکستانی۔
جنھیں اپنے وطن سے پیار ہے ان کی طرف سے یہ مطالبہ یہ بڑی تبدیلی ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہے کہ یہ تبدیلی کی ابتداء ہے۔ خوف کی سرحد کے پار کہیں انسانی اقدار کی آزادی ہے جہاں انسانوں کی حرمت ہے جہان بائیس کروڑ لوگوں کی عزت ہے اس منزل تک پہنچے میں ابھی وقت ہے لیکن سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ پہلا قدم اٹھ چکا ہے۔
نفسیات دان بتاتے ہیں کہ جو لوگ دوسروں کو خوفزدہ کرتے ہیں دراصل خود خوفزدہ ہوتے ہیں، اپنے خوف کو چھپانے کے لیے وہ لوگوں کو ڈراتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب خوفزدہ لوگ خوف کے حصار کو توڑ دیتے ہیں، ڈر کی سرحد عبور کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی پاکستان میں ہو رہا ہے، ڈرانے والوں نے خوف زدہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کر لیا، ہر طریقہ آزما لیا لیکن لوگ اب خوفزدہ نہیں ہو رہے، ہر چال الٹی پڑ رہی ہے، لوگ پہلے سے نڈر ہو رہے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ڈرانے والے خود ڈرنے لگتے ہیں، انھیں اپنے ہی انجام سے خوف آنے لگتا ہے، اپنی ہی غلام لوگوں کی آواز سے وہ سہم جاتے ہیں۔ کیونکہ جب لوگ ایک دفعہ خوف کے حصار کو توڑ دیتے ہیں تو پھر اس قید میں نہیں جاتے۔ لوگ پھر آزاد فضاؤں میں رہنا چاہتے ہیں جہاں دہشت نہ ہو، جہاں ظلم نہ ہو، جہاں خوف نہ ہو، جہاں بربریت نہ ہو۔
اس وقت پاکستان کے بائیس کروڑ عوام جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اب ڈرانے والے ان کے ساتھ مزید کچھ کھیل کھیلنے قابل نہیں رہے۔ اب عوام کے کھیلنے کی باری ہے۔ شاعروں کے کور کمانڈر فیض احمد فیض نے تو بہت پہلے نوید سنائی تھی کہ
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر