گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
100 سال پہلے کا ڈیرہ اور ہم ۔۔
ٹھیک ہے بے پھَر ہیں اَساں ۔۔
مارے ہوئے دَر ہیں اَساں۔۔۔۔
گزشتہ روز میں نے سید مجاھد اکبر شاہ کا سرائیکی کلام فیس بک پر اپلوڈ کیا اور دوستوں سے درخواست کی کہ وہ اس کا اردو ترجمہ کر دیں۔ فیس بک پر سید مظہر تابش صاحب اور واٹس ایپ پر شبنم اعوان صاحبہ نے ترجمہ کیا اور میں اس کلام کے ساتھ لگا دیا۔
اصل میں جو مفہوم وجود میں آیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ۔۔
اگرچہ ہمارے پاس کچھ نہیں بچا ۔۔ہمارے گھر بار بھی چلے گیے دروازوں پر تالے لگ گیے لیکن پھر بھی اے محبوب ہم تجھ سے محبت کرتے ہیں اور تیرے غلام ہیں۔
اب اس کی کہانی سنیے۔
سو سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خان شھر کی کہانی کچھ یوں ہے کہ کچی پائند خان میں ایک امراض چشم کا ہسپتال کام کر رہا تھا جس میں پچاس مریضوں کے بستر بھی تھے۔ اس ہسپتال کو آنکھوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر جھنڈا رام چلا رہےتھے اس لیے اس کو جھنڈے والی ہسپتال بھی کہتے تھے۔ پھر اس ہسپتال کا کچھ پتہ نہیں کیا ہوا۔
1936 ء میں جیسا رام بھاٹیہ نے مسگراں بازار میں خیراتی ہسپتال کی بنیاد رکھی جس میں سیکڑوں مریضوں کا علاج ہوتا تھا۔ لوگ اس کو جیسے لوٹھے والی ہسپتال سے یاد کرتے ہیں۔اب یہ بلڈنگ بوسیدہ ہو چکی اور حکومت کی کوئی توجہ نہیں۔ اس خیراتی ہسپتال کو عوام کی فلاح و بہبود کا ادارہ بنانے کی بجائے حکومت اونے پونے بیچنے کے پروگرام بناتی رہتی ہے۔ جبکہ یہاں سے لٹے پٹے مہاجر بن کر انڈیا جانے والے جیسا رام نے وہاں اسی نام سے جدید ہسپتال بنا دیا جس کی تصویر بھی دیکھ لیں۔
اسی زمانے ایک ہندو ڈیرہ وال لالہ ٹھاکروت دھون بیوگان کو تعلیم مفت اور وظیفہ دیتے تھے ۔درزی کے کام سیکھنے کی کلاس جاری کرائ۔ اسی ٹھاکروت نے 1921ء میں وی بی کالج کی بنیاد رکھی جو اب ہمارا ڈگری کالج نمبر 1 ہے۔
ڈگری کالج نمبر ایک کو بھی BS کلاسوں کے لیے مختص کر کے اس کے بنیادی مقصد FA/Fsc کی کلاسوں کو بند کرنے پروگرام شروع ہے۔آجکل بھی طلبا انتظار میں رُل رہے ہیں۔
وااہ میرے بھائیو بنے بناۓ اداروں کو ترقی دینے کی بجاۓ ہم انہیں ضائع کر رہے ہیں۔۔پھر شاعر ٹھیک کہتا ہے۔۔۔
مارے ہوئے در ہیں اساں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر