گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈونگہ در اصل ایک لمبی بانس کی ڈانگ ہوتی ہے جس کےایک سرے پر درانتی کو نصب کر دیا جاتا ہے۔ عام طور پر بکریاں چرانے والا چھیڑو ۔۔چرواہا ۔۔ اس ڈونگے کو اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ یہ ڈونگہ اونچے درختوں کی چھوٹی شاخیں ۔ پتے ۔کیکر کی پھلیاں اتارنے میں کام آتا ہے ۔ بکریاں بیری کے درخت کے سبز پتے ۔ کیکر کی پھلیاں اور آکاش بیل جسے یہاں لوط بوٹی کہتے ہیں بہت شوق سے کھاتی ہیں۔
اگرچہ میں نےایک پیشے کے طور پر بکریاں چرانے کا کام نہیں کیا مگر دیہی ماحول کی وجہ سے چرواہوں کے ساتھ چرواہ گیری کر لیتا تھا کیونکہ خود گھر میں بکریاں پالتا تھا اور بکری کے چھوٹے بچوں کو اٹھاے اٹھاے پھرتا۔ بکری کے بچے انسان سے بہت پیار کرتے ہیں۔
میں اس ڈونگے سے درختوں کےتازہ پھل اور شھد کے چھتے بھی اتار لیا کرتا تھا۔
آپ حیران ہونگے کہ انسان کی خوراک میں بکری کا تازہ دودھ ۔تازہ پھل۔شھد۔مکھن ۔دریاۓ سندھ کی تازہ مچھلی۔ دیسی مرغی کا ثوبت کی شکل والا سالن شامل ہو تو اس کی صحت بہترین ہوتی ہےچہرہ دمک اٹھتا ہے اور بیماریاں قریب نہیں آتیں۔ اس زمانے ہمارے گاٶں میں کوئ ڈاکٹر کمپاونڈر نہیں تھا اب درجنوں دکانیں ہیں۔
پھر ہم نے ترقی کر لی اور اب ان میں سے کوئی چیز اصلی آرگینک شکل میں موجود نہیں جبکہ ہماری الماریاں دواٶں سے بھری پڑی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر