وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر تقی میر نے خود کو دریا کہا تھا۔ بے شک وہ ایسے ہی تھے۔ لاہور مگر ایک سمندر ہے اور ایسا سمندر جس کا پانی میٹھا اور مہربان ہے۔ دور دور سے ٹھنڈے چشمے زرخیز زمینوں کی خزانے اپنے سینے میں سموئے جھومتے بل کھاتے لاہور پہنچتے ہیں، تہذیب اور کشادہ دلی کے اس ساگر میں اتر جاتے ہیں، لاہور کا دامن کچھ اور وسیع ، کچھ اور وقیع ہو جاتا ہے۔ یہ روایت بہت پرانی ہے۔ 1857 کی قیامت نے دم لیا تو فرنگی کا انتقام جاگ اٹھا۔ کشتگان میں دہلی اخبار کے مدیر مولوی باقر علی دہلوی بھی شامل تھے جنہیں 77 برس کی عمر میں گولی ماری گئی۔ مولوی صاحب کو اردو صحافت کا پہلا شہید کہنا چاہیے۔ یہ جو ہم حامد میر اور ابصار عالم سے محبت کرتے ہیں، بے سبب نہیں۔ اقبال نے اپنے ممدوح کے لئے لکھا، ترکش ما را خدنگ آخریں…. ہمارا دکھ لیکن فیض صاحب نے بیان فرمایا، اماں کیسی کہ موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری…. مولوی باقر کی شہادت سے ان کے 30 سالہ صاحبزادے محمد حسین آزاد یتیم ہی نہیں، بے وطن بھی ہوگئے۔ اس چھوٹی عمر میں علم دوستی کا یہ عالم اور روایت کا ایسا احترام کہ گھر سے نکلتے ہوئے کچھ نہیں اٹھایا، اپنے استاد ابراہیم ذوق کے کلام کا مسودہ سر پر اٹھا لیا۔ جہاں تہاں کی خاک چھانتے 1864 میں لاہور پہنچے اور گورنمنٹ کالج میں 15 روپے ماہوار پر ملازم ہو گئے۔ اگر آپ نے نہیں تو آپ کے کسی بزرگ نے نصاب کی کتاب میں وہ مضمون ضرور پڑھا ہو گا، ’مولوی صاحب کا گھوڑا‘۔ محمد حسین آزاد ہی کا ذکر تھا۔ 1869ءمیں غالب نے پروانہ اجل کو لبیک کہا تو پانی پت کے الطاف حسین حالی بھی لاہور پہنچ گئے۔ ان دو بزرگوں نے لاہور میں اردو کا پودا لگایا۔
کیسی مبارک کاشت تھی کہ چند برس میں لاہور سے علامہ اقبال اور سر شیخ عبدالقادر جیسے سایہ دار شجر نمودار ہوئے۔ درویش کو سر عبدالقادر کی زیارت کا شرف نہیں ملا۔ 1950 میں وفات پا گئے تھے لیکن 80 کی دہائی میں ان کی بہو اور منظور قادر کی بیوہ اصغری منظور قادر کی ماتحتی کا اعزاز نصیب ہوا۔ شاما چڑیا جیسی مختصر اندام مگر اس مشت خاک میں تعلیم اور بچیوں کی فلاح کے لئے آگ فروزاں تھی۔ اے نالہ، نشان جگر سوختہ کیا ہے…. سر عبدالقادر کے بارے میں ایک حکایت عاشق حسین بٹالوی نے ’چند یادیں، چند تاثرات‘ میں درج کر رکھی ہے۔ عاشق صاحب کا معمول تھا کہ شام گئے اپنے احباب باری علیگ، ابو سعید بزمی، سید افضل علی اور چراغ حسن حسرت وغیرہ کے ہمراہ لاہور کی ٹولنگٹن مارکیٹ سے انار کلی کے چوک تک ٹہلا کرتے تھے۔ ایک روز لب سڑک ایک شخص مکئی کے بھٹے بھونتا نظر آیا۔ چنانچہ بھٹے خریدے گئے اور آگے بڑھے۔ اچانک سامنے سے شیخ عبدالقادر نکلے۔ ایک دوست نے گھبرا کر کہا کہ شیخ صاحب آ رہے ہیں، بھٹے چھپا لو۔ عاشق صاحب نے ٹھیٹھ علی گڑھ کی اصطلاح میں کہا، جھانپل مت بنو۔ شیخ صاحب نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ آگے بڑھے اور دونوں ہاتھوں پر بھٹا رکھ کے شیخ سے عرض کی کہ شوق فرمائیے۔ شیخ صاحب نے مسکرا کر کہا ، ’ صاحبو! اب ہمارے دانت کہاں۔ آپ ہی لطف اٹھائیے‘۔ کیسے بھلے مانس لوگ تھے۔
یہ قصہ آج اس لئے یاد آیا کہ کچھ مہربان اپنے سوشل میڈیا پروگراموں از قسم یو ٹیوب وغیرہ پر مدعو کر لیتے ہیں۔ ہم ایسوں کے پاس علم کے نام پر کہنے کو کیا ہو گا۔ دوستوں کی دل آسائی البتہ کر لیتے ہیں۔ لیجئے ایک شعر ہندوستان سے درآمدہ سن لیجئے۔ فقط پاس وفاداری ہے، ورنہ کچھ بھی ممکن ہے / بجھا سکتا ہوں انگارے، ابھی آنکھوں میں پانی ہے۔ ایسے ہی ایک پروگرام پر کسی سامع کا تبصرہ نظر آیا۔ صاحب نے شکایت کی تھی کہ چشمے والا درویش منہ میں پان رکھ کے کیوں بات کرتا ہے۔ بہت ہنسی آئی۔ داغ پر گزرنے والے صدموں کی بندہ نواز کو کیا خبر۔ انہیں تو نہیں بتا سکتا تھا۔ آپ کو راز کی بات بتا دیتا ہوں۔ کوئی چالیس برس تمباکو نوشی سے پھیپھڑے بہشتی کی چرمی مشک بن گئے اور ایک آدھ کو چھوڑ کر سب دانت گر گئے۔ برسوں پہلے جو مصنوعی دانت لگوائے تھے، اب وہ بھی متزلزل ہو رہے ہیں۔ بصارت اور بصیرت کے روزن تو ابتدا ہی سے نیم تاریک تھے۔ مجھے نصیحت کرنے، بالخصوص اپنی ہی کسی علت کی قباحت بیان کرنے سے حیا آتی ہے لیکن نوجوانوں سے درخواست ہے کہ اگر ممکن ہو تو تمباکو نوشی سے گریز کیجئے۔ اس کے جسمانی نقصانات ثابت شدہ ہیں۔ اگلے روز برادر بزرگ روحیل اصغر نے اپنے وسیع دسترخوان پر مجھے ’چڑی چوگا‘ کرتے دیکھا تو ڈانٹ کر کہا، تم ٹھیک سے کیوں نہیں کھا رہے۔ اب یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ میں تو شوربے میں لقمہ ڈبو کر ایسے کھا رہا ہوں جیسے مرحوم مہدی حسن غزل کے لفظوں سے زلیخائی کیا کرتے تھے۔ بے ساختہ یہی عرض کر سکا، ’روحیل بھائی، میرے دانت سویلین ہو گئے ہیں‘۔ مطلب یہ کہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔ دمدموں میں دم نہیں رہا۔
ہم فانی انسان تو وقت کے دامن پر مدہم نشان ہیں، مٹنے میں دیر نہیں لگے گی۔ زندگی کے احسان، وطن کی نعمتوں اور دوستوں کی محبت کے شکرگزار ہیں۔ جو وقت کٹا، کسی خوشگوار خواب جیسا سبک گزرا۔ دانتوں کا ارتحال عمر کا لگان تھا۔ اچھا ہوا، گناہوں کے عینی گواہ رخصت ہوئے۔ وطن کی خیر منانی چاہیے۔ خدا کرے کہ اس ملک کے لوگوں کو اپنے امکان کی بلندیاں نصیب ہوں، آزادی کامل، اختیار، امن، انصاف، تعلیم اور روزگار سے بہرہ ور ہوں، استحصال، اجارے اور محرومی سے نجات ملے۔ تخلیق کے ارتفاع کی سرشاری ان کی دہلیز پر رقص کناں ہو، ملک کے اندر اور باہر ان کے احترام میں اضافہ ہو۔ شہرت بخاری نے کہا تھا:
فسردہ ہونے سے حاصل، چلو تلاش کریں
کہیں تو ہوں گی بہاریں جو گلستاں میں نہیں
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر