محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف فیس بک بلاگر، انٹرپرینیوراور ٹرینر، انجینئر احمد سلیم المعروف ابن فاضل کی کتاب’’ خوشحالی کی دستک‘‘ کا پچھلے کالم میں تذکرہ ہوا۔ ابن فاضل صاحب نے بہت سے ایسے نئے اور تخلیقی آئیڈیاز متعارف کرائے ہیں، جن پر ہمارے ہاں بالکل ہی کام نہیں ہو رہا۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت، خلاق ذہن اورمختلف ممالک میں اپنے سفر کے دوران مشاہدات کو انہوں نے مفاد عامہ کے لئے بیان کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ دنیا جن چیزوںسے زرمبادلہ کما رہی ہے، ہم پاکستانی وہ کیوں نہیں کر سکتے؟ان کی کتاب’’ خوشحالی کی دستک‘‘ اور’’ خوشحال پاکستان ‘‘کا عملی منصوبہ دراصل اسی خواب کی تعبیر پانے کی سعی ہے۔ ابن فاضل صاحب کی کتاب ’’خوشحالی کی دستک ‘‘ سے چند آئیڈیازکا خلاصہ۔ بیان ان کا ہے، تلخیص میں نے کر دی ۔ تفصیل جاننے کے خواہشمند کتاب دیکھیں، جس میں رنگین تصاویر سے رہنمائی کی گئی۔ ابن فاضل لکھتے ہیں، ’’کئی سال پہلے دوستوں کے ساتھ دیوسائی کا پروگرام بنایا، ایک مقامی گائیڈ ساتھ تھا۔ دیوسائی سے کچھ پہلے مجھے ’’ہائیٹ سک نیس‘‘ ہوگئی ۔
مقامی گائیڈ نے مجھے یاک کا دودھ کہیں سے لا کر دیا، خاصا گاڑھا تھا جیسے ربڑی والا دودھ ہوتا ہے۔ ایک کپ پینے کے بعد بالکل ٹھیک ہوگیا۔ آج بھی وہ دودھ اور اس کے حیران کن اثرات یاد آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی نے اس یاک کے دودھ پر سٹڈی کی ؟اس کی باقاعدہ پیداوار کا سوچا؟ کبھی کسی مقامی نے غور کیا کہ عام بھینس اور یاک کے اختلاط سے کوئی ایسی نسل بنائی جائے جو ایسا ٹانک زیادہ مقدار میں پیدا کر سکے؟
’’اسی طرح استور سے راما جھیل جاتے ہوئے دیکھا کہ ایک پہاڑی نالے میں دور سے ایک چھوٹا نالہ کافی ساری زمین کاٹ کر ملایا گیا ہے۔مقامی لوگوں سے پوچھا تو کہنے لگے کہ اگر صرف بڑے نالے کے پانی سے زمین سیراب کریں تو چوہے بہت پیدا ہوتے ہیں، فصلیں تباہ کر دیتے ہیں، چھوٹے نالے کے پانی کی آمیزش سے چوہے ختم ہوجاتے ہیں اور فصل اچھی ہوتی ہے۔
یہ سن کر حیرانی ہوئی، پوچھا، آپ نے کبھی پتا لگایا کہ چھوٹا نالہ پیچھے کہاں سے آتا ہے؟کس پتھر سے کون سے کیمیائی مادے کی آمیزش ہوتی ہے جس سے یہ خوبی پیدا ہوئی؟ کوئی جواب نہیں ملا۔ ہم میں اگر ترقی کی جستجو، کچھ شوق ہو تو پانی کا ٹیسٹ کرایا جا سکتا ہے، ان پتھروں کا کھوج لگایا جا سکتا ہے جن کی آمیزش سے ایسی زبردست خوبی پیدا ہوئی۔ ان کو پیس کر بوریوں میں بھر کر ملک بھر میں بیچا جا سکتا ہے کہ مصنوعی زہروں سے ہزار گنا بہتر قدرتی چوہے مار ہے۔
’’ایک بار ایبٹ آباد سے کچھ آگے ایک پہاڑی نالے کے پاس خیمہ لگایا۔ ایک دوست نے نالے کے پانی سے سر دھویا، کچھ دیر بعد بال ایسے جیسے مہندی لگائی ہو۔ ایک دم بھورے اور زبردست چمکدار، یقین نہیں آتا تھا۔ قدرتی ہیئر ڈائی نامعلوم کب سے اور کہاں سے پانی میں گھل گھل کر آ رہی تھی؟گوریوں کو بتایں کہ قدرتی ہے تو منہ مانگی قیمت پر لے لیںگے۔ کچھ عرصہ قبل تبت کے علاقہ میں جہاں ہماری طرح یاک پائے جاتے ہیں، باقاعدہ اس کی ڈیری فارمنگ شروع کی گئی ہے۔
وہاں دودھ محفوظ کرنے کا ایک پلانٹ لگایا ہے اس دودھ کا نام انہوں نے ’’سپر فوڈ‘‘رکھاہے۔ ایک پائو یاک مِلک کی قیمت تقریبا ساڑھے پانچ سو پاکستانی روپے ہے۔ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ ابن فاضل کا کہنا ہے،’’ہم استور کے نواح میں خیمہ زن تھے، آس پاس کے لوگ ملنے آئے، کھانا بھی لے آئے، دال ماش کے ساتھ چھوٹی پیالی میں دیسی گھی۔ وہ گھی کمال تھا، انتہائی سفید اور باریک دانے دار، بالکل بھی کوئی ہمک یا ناگوار مہک نہیں۔
ایسا گھی پہلی بار کھایا تھا۔ ان سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہاں کے ایک درخت سے سفید کاغذ کی طرح کی پرتیں اترتی ہیں، یہ لوگ عام طریقے سے مکھن نکال کر اسے گرم کر کے گھی بناتے ہیں۔ پھر اس کاغذ نما پرت میں اس گھی کو لپیٹ کر زمین میں آدمی جتنا گڑھا کھود کر دبا دیتے ہیں۔ ایک سال بعد نکالتے ہیں۔ تب یہ ایسا انوکھے ذائقے والا گھی بن چکا ہوتا ہے۔ بعد میں اہل علم سے پوچھنے پر علم ہوا کہ یہ برچ کا درخت ہے جس سے باریک کاغذی تہیں اترتی ہیں۔
اگر ہم منظم طریقے سے اس پر کام کریں، اس درخت کی باقاعدہ کاشت کریں۔ باقاعدہ ڈیری فارمنگ ہو، اسی معیار کا گھی تیار ہو۔ دنیا کو ویڈیوز کے ذریعے اس کا طریقہ بتائیں، مشہور لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرائیں، رپورٹ جاری کریں۔ دنیا بھر کے رئوسا ہمارے گاہک بن جائیں گے۔ ’’ایسا ہی ایک واقعہ استور سے شنٹر کے راستے کشمیر جاتے ہوئے ہوا۔ رٹو نامی قصبہ راستے میں پڑتا ہے، وہاں ایک سکول تھا، اس کے بچوں کو پڑھایا، گپ شپ لگائی۔ ان کے ہیڈ ماسٹر نے بتایا کہ اس علاقے میں ایک درخت ہے جس کی چھال کو پیس لیا جائے تو بالکل برنال بن جاتا ہے ۔ ہمیں انہوں نے دکھایا ، رنگ بھی بالکل ویسا اور بقول ان کے کارکردگی بھی اس سے بہتر یعنی قدرتی اینٹی سیپٹک۔ اس پر ریسرچ کی جا سکتی ہے؟
اسی طرح ہمارے ہاں چلاس کی سلاجیت کا بڑا غلغلہ ہے ۔ کسی نے آج تک اس پر سائنٹفک سٹڈی کی ہے؟ کبھی کوئی کیمیائی تجزیہ کہ کون سے منرلز ہیں اور کون سے نیوٹرینٹس اس میں شامل ہیں؟ کس طرح جسم کے لئے فائدہ مند ہیں ؟ اگر ہیں تو اس کی پیداوار کیسے بڑھائی جائے؟ کسی تجربہ کار مائننگ انجینئر کو اس جگہ لے جائیں جہاں سے نکلتی ہے۔ وہ پتھروں کا تجزیہ کرے۔ ‘‘ ابن فاضل اپنی اسی سیریزکے تیسرے باب میں لکھتے ہیں:’’شانکسی چین کا صوبہ ہے۔حکام نے محسوس کیا کہ آب وہوا کے اعتبار سے یہاں ختن ہرن یعنی نافہ کی پرورش کی جا سکتی ہے۔ یہ وہ ہرن ہے جس کی ناف سے دنیا کی مہنگی ترین خوشبو مشک یا کستوری نکلتی ہے۔
1994ء میں چار سو الپائن ہرنوں کا ایک فارم بنایا گیا، جہاں ان سے فی کس زیادہ سے زیادہ کستوری حاصل کرنے اورا نہیں بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے تجربات کئے جاتے رہے ۔ ان تجربات سے حاصل کردہ علم کی بنا پر آج وہاں صرف شانکسی صوبے میں چودہ ہزار سے زائد ہرن ہیں۔ ان سے ایک سال میں پاکستانی روپوں کے حساب سے ایک ارب سے زائد کی مشک حاصل کی گئی۔ پاکستان میں سکرود، ہنزہ، گلگت، چترال، استور، کاغان، ناران، آزاد کشمیر، مانسہرہ، بالاکوٹ تک لاکھوں کلومیٹر کا ایسا وسیع وعریض علاقہ ہے جس میں قدرتی طور پر یہ ہرن پائے جاتے ہیں۔ یہاں ان ہرنوں کی فارمنگ ہوسکتی ہے۔ ہم نے ایسا کرنے کے بجائے مشک حاصل کرنے کے لئے ان کا اندھادھند شکا ر کیا، جس کے نتیجے میں آج ان ہرنوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔
اب بھی اگر ہم شانکسی چین کی طرز کا فارم اور نسل بڑھانے کا مرکز بنا لیں اور محنت کریں تو دس پندرہ برسوںمیں ہمارے پاس بھی بیس تیس ہزار ہرن ہوسکتے ہیں جو اربوں روپے کے زرمبادلہ کا ذریعہ بن جائیں گے۔ بیجنگ سے دیوار چین دو سو کلومیٹر دور ہے، راستہ نیم پہاڑی ہے جیسا اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے آغاز میں آتا ہے، دیکھا کہ چینیوںنے پہاڑی نالوں کو بالکل سیڑھی کی شکل دے رکھی ہے یعنی اس کی ڈھلوان کے اعتبار سے سو دو سو میٹرکے فاصلے پر دیوار اور پھر سیدھا۔ تاحدنگاہ پانی کے تالاب اور آبشاریں بنائی گئی ہیں، ان تالابوں میں چینی مچھلیاں اور بطخیں پالتے ہیں۔ ہم بھی ایسا کر کے ٹرائوٹ مچھلی پال سکتے ہیں ۔ یہ ٹرائوٹ اور بطخ کا گوشت ، انڈے وغیرہ ملک بھر میں سپلائی ہوسکتے ہیں۔ ’’ ایک اور انوکھی چیز سی بک تھورن(sea buckthorn) ہے، یہ چھوٹا سا جھاڑی نما پودا ہے جسے فارسی میں سنجد کہتے ہیں، اس پر پیلے رنگ کا بیر نما پھل لگتا ہے جسے سی بیریز کہتے ہیں، ان سی بیریز اور اس کے بیج سے تیل نکلتا ہے۔ سائنسی ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ سی بک تھورن کے تیل میں ایک سو بانوے کیمیائی اجزا ہیں جو انسانی جسم اور بیماریوں سے ہوئی شکست وریخت کو مندمل کرنے میں مفید ہیں، ان میں اومیگا تھری ، سکس اور نائن شامل ہیں۔
دنیا کا واحد تیل ہے جس میں یہ تینوں اجزا پائے جاتے ہیں، جبکہ پولی فینولز، فلیونائیڈز، گلائکو سائیڈاور بہت کچھ پایا جاتا ہے۔ اس تیل سے کینسر کے مریضوں کی تھراپی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ پودا پاکستان میں بھی پایا جاتا ہے، گلگت بلتستان، چترال اور خاص کر ہنزہ میں۔ مقامی لوگ اسے’’ میرغز ‘‘ اور بورو کہتے ہیں۔چین میں سی بک تھورن پر تحقیق کے لئے ایک پورا ادارہ بنایا گیا ہے۔ ہمیں اس پھل کی اہمیت کا احساس نہیں اور اس کا تیل الگ کرنے سے بھی واقف نہیں۔ عالمی منڈی میں اس کا غیر صاف شدہ تیل ساڑھے تین سو ڈالر فی کلوگرام ہے، جبکہ اس کے پھل اور پتوں سے نکالے گئے ست سے علیحدہ کئے گئے فلیونائیڈز لاکھوں ڈالر فی کلوگرام قیمت رکھتے ہیں، یاد رہے کہ ایک ایکڑ سے ڈیڈ ھ سو کلو بیج حاصل ہوتاہے جس سے بیس پچیس کلو تیل نکالا جا سکتا ہے۔ ‘‘ صرف گلگت بلتستان کے خطے سے ہم ہر سال اربوں ڈالر زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس انمول خزانے ہیں جو خوابیدہ وارثوں کی راہ تک رہے ہیں۔ کاش ہم بیدار ہو کر ان پہلوئوں پر توجہ دے سکیں۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر