نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ ہوکیا رہا ہے صاحبو!||حیدر جاوید سید

پاکستان نیوزی لینڈ کرکٹ سیریز منسوخ کردی گئی۔ ابتداء میں بی سی سی پی کی جانب سے کہا گیا نیوزی لینڈ ٹیم کے دو ارکان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے۔ چند ہی لمحوں بعد نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے ذمہ داران نے اس خبر کی تردید کردی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان نیوزی لینڈ کرکٹ سیریز منسوخ کردی گئی۔ ابتداء میں بی سی سی پی کی جانب سے کہا گیا نیوزی لینڈ ٹیم کے دو ارکان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے۔ چند ہی لمحوں بعد نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے ذمہ داران نے اس خبر کی تردید کردی۔
اسی دوران عالمی ذرائع ابلاغ نے کہنا شروع کیا کہ نیوزی لینڈ پاکستان کر کٹ سیریز منسوخ کرنے کی وجہ دہشت گردی کے خطرات ہیں۔
یہ خبر بھی آئی کہ برطانوی وزیراعظم نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو ٹیلیفون پر بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پر حملے کا خطرہ ہے۔
سوشل میڈیا پر ’’انجمن تحفظ حقوق حب البرتنی‘‘ نے ادہم مچادیا۔ بھارتی سازش، سب جھوٹ ہے، سازش سازش کا شور شروع ہوگیا۔ پھر وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے اپنے ٹیوٹر اکائونٹ پر لکھا
’’کچھ دیر قبل وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور انہیں بتایا کہ پاکستان میں سکیورٹی کے انتظامات پر آپ کی ٹیم کے سکیورٹی آفیشلز اطمینان کا اظہار کرچکے، میں بھی آپ کو ہر قسم کی یقین دہانی کراتا ہوں۔ جواباً نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے کہا کہ ’’موجودہ حالات میں کرکٹ سیریز ممکن نہیں آپ ہمارے تحفظات کو مدنظر رکھیںٔ‘‘۔
سوشل میڈیا پر ہر اس شخص کو کوسنے دیئے جارہے ہیں جو کرکٹ سیریز کی منسوخی کے پس پردہ عوامل پر بات کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہم حقائق سے آنکھیں چرانے کی ’’وبا‘‘ کا نسل در نسل شکار چلے آرہے ہیں۔
مناسب یہ ہوگا کہ اس معاملے کا معروضی حالات کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے۔ پاک نیوزی لینڈ کرکٹ سیریز کی منسوخی اچھا شگون نہیں۔ بڑی مشکل سے کرکٹ کے میدان آباد ہوئے تھے۔ ویسے شکر ہے کہ اس موقع پر کسی نے کرکٹ میچز کی منسوخ کا ذمہ دار نوازشریف اور زرداری کو نہیں ٹھہرا دیا۔
ایک عامل صحافی کے طور پر میرے لئے اس معاملے کو افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے ہمارے بعض رہنمائوں اور وزراء صاحبان کے بیانات سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہے۔
کیا ہم اس سے انکار کرسکتے ہیں کہ اس وقت ہم افغان طالبان کے خود ان سے بھی زیادہ پرجوش ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکومتی و ریاستی اکابرین کے بیانات سے تو یہ تاثر ملتا ہے جیسے افغانستان کو امریکہ سے خالی کرواکر ’’ہم‘‘ نے افغان طالبان کے حوالے کیا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ ہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو معافی دینے پر بھی غور کررہے ہیں۔
بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم (ہماری حکومتی و ریاستی قیادت) نے ماضی سے سبق سیکھا نہ رہنمائی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔
آپ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان ’’دوشنبے‘‘ والی تقریر کا مکمل متن پڑھ لیجئے۔ ہمیں اپنی بات کرنی چاہیے۔ جن پر باردیگر واری صدقے ہوا جارہا ہے انہوں نے اپنے پچھلے دور میں ڈیونڈر لائن پر آپ کی منتوں ترلوں کےباوجود بات کرنا بھی گوارہ نہیں کی اور اب بھی وہ پاک افغان سرحد پر لگی خاردار تاروں کو اپنے لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ افغان طالبان کے لئے ہماری بے کراں محبت، ان کی جذباتی ترجمانی اور دوسرے معاملات کی وجہ سے ابہام پیدا ہورہے ہیں۔
ویسے جناب عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے دوست برطانوی وزیراعظم کو بھی ایک ٹیلیفون کرکے ان سے پوچھ لیں کہ انہوں نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو دہشت گردی کے جس خطرے سے آگاہ کیا یہ درست جاسوسی اطلاعات ہیں یا امریکہ کا پیغام آگے بڑھایا گیا ہے؟
مکرر عرض ہے ہمیں دوسروں سے شکوے کرنے، کوسنے دینے اور سازشوں کا رولہ ڈالتے رہنے کی عادتوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ جن معاملات (افغان صورتحال) پر ہم خود کو اس وقت ہیرو کے طور پر پیش کررہے ہیں یہ ہمارے لئے مسائل پیدا کریں گے۔
دنیا کی نظر میں ہماری حیثیت کیا ہے یہ سب جانتے ہیں بس اعتراف کا حوصلہ ہے نا اصلاح کی ضرورت کو شعوری طور پر سمجھناچاہتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بھلے امریکہ بہادر دوحا معاہدے کے تحت افغانستان سے نکلا ہے، انخلا کا عمل مکمل کرنے میں ہم نے دنیا سے تعاون کیا لیکن دنیا کو افغان طالبان کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرنے میں کوئی جلدی نہیں یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کی پرجوش وکالت ہمیں مہنگی پڑسکتی ہے
لیکن ہمارے دانے بینے اور عقل کی ہمالیہ پر بیٹھے پالیسی سازوں کو یہ بات کون سمجھائے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دو کھیلاڑیوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے، والا شوشہ چھوڑنے کی ضرورت کیا تھی؟
جھوٹ بولا تھا تو اس پر قائم رہتے کم از کم اس حوالے سے ہی کردار کا مظاہرہ کردیتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا افغانستان کو آپ کی آنکھوں سے دیکھنے اور عقل سے سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ کی ضرورتیں اور مجبوریاں ہوسکتی ہیں دنیا کو کیا پڑی ہے اوکھلی میں سر دے۔
یہاں صورت یہ ہے کہ افغان ایشو پر مسلم دنیا کے آپ کے علاوہ ایک دو ملکوں کے سوا سبھی تو خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ قاتلوں کو مسیحا اور حملہ آوروں کو نجات دہندہ سمجھنے کی بیماریاں صرف ہمارے یہاں ہی پائی جاتی ہیں۔ ہمیں اپنی ادائوں پر غور کرنا ہوگا۔
نیوزی لینڈ کا کرکٹ سیریز منسوخ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے کو وجہ قرار دینا مزید مسائل پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ سیدھے سبھائو اپنے مفادات کو دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خطے کے ممالک سے بہتر تعلقات، تجارتی روابط یقیناً ہماری طرح سب کی ضرورت ہیں صرف یہ تاثر دیتے رہنا کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ کسی بھی طرح درست نہیں۔
ہمیں افغان اسٹوڈنٹس کی محبت میں اپنے لئے کانٹے بونے سے ہی گریز نہیں کرنا چاہیے بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لئے عام معافی بارے غوروفکر کی بھی ضرورت نہیں۔
اس کم لکھے کو بہت جانئے، حضور ہمارے آج اور ہماےر بچوں کے مستقبل پر رحم کیجئے، آپ کے بچے تو باہر بھی ہیں اور محفوظ بھی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author