زاہد حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مساوات اخبار بند ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال ہو چلا تھا اور میں ان دنوں امن اخبار میں بہت معمولی تنخوا ہ پر کام کر رہا تھا۔امن اخبار بھی چونکہ پیپلز پارٹی کو سپورٹ کر تا تھا اس لیے 70-کلفٹن سے میرا رابطہ قائم تھا مساوات میں بھٹو فیملی کی کوریج کرتے ہوئے ہمارا رشتہ سیاستدان/صحافی کا بھی تھا اور مالک/نوکر کا بھی تھا مگر امن اخبار میں کام کرتے ہوئے اب بھٹو فیملی سے میرا رشتہ صرف سیاستدان/صحافی کا تھا اس لیے اب میں 70-کلفٹن میں ہر وقت موجود نہیں ہوتا تھا۔انہیں جب ضرورت ہوتی تھی امن میں فون کر کے بلوا لیتےتھے۔ ان دنوں ویسے بھی زیادہ تر بیگم بھٹو لاہور میں اور بے نظیر کراچی میں نظر بند یا جیلوں میں گرفتار رہی تھیں اور اب کچھ دنوں میں وہ آزاد تو تھیں مگر ان پہ ایک صوبے سے دوسرے میں جانے پر پابندی تھی کیونکہ بیگم صاحبہ ان دنوں ایم آر ڈی تشکیل دینے کے لیے دوسرے لیڈروں سے گفت و شنید میں مصروف تھیں۔ ان دنوں ںسندھ کی ایک خاتون لیکچرر اور پاکستان کے اکلوتے ٹی وی کےٹاک شو کی اینکر مہتاب چنہ کی شادی کا تذکرہ ہو رہا تھا جو فروری 1981 کے پہلے ہفتے میں ہونے جارہی تھی۔مہتاب چنہ کی وجہ شہرت یہ تھی کہ انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے ایک حکم کی واضح خلاف ورزی کی تھی جس میں خواتین کے لئے ٹی وی پروگرامز میں دوپٹہ اوڑھنا لازم تھا چنانچہ انہیں دوپٹہ پہننے سے انکار کے جرم میں ان کے پروگرام سے الگ کر دیا گیا تھا۔مہتاب چنہ چونکہ نوڈیرو کی رہنے والی ہیں جو ان کا آبائی گاؤں تھا لہٰذہ ان کے والدین کے بھٹو فیملی سے اچھے تعلقات رہے ۔ بعد میں بے نظیر کبھی کبھار لاڑکانہ جاتے ہوئے جامشورو میں مہتاب چنہ کے پاس کچھ دیر رک جاتی تھیں اور ان سے سندھ کی ثقافت اور دیگر موضوعات پر گفتگو بھی کر لیتی تھیں۔ چنانچہ ان دنوں یہ بات بھی صحافیوں میں موضوع گفتگو تھی کہ بیگم بھٹو اپنی صاحبزادیوں کے ساتھ اس شادی میں شریک ہوں گی۔ اور اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شادی سے ایک دن پہلے بیگم بھٹو ٹوپی والا سفید برقع پہن کر اپنی ایک نوکرانی اور اس کے آٹھ دس سالہ بچے کے ساتھ کراچی کینٹ اسٹیشن سے ٹرین میں بیٹھ کر لاہور پہنچ گئیں اور ایم آر ڈی کے بڑے لیڈروں کے ساتھ ایک اہم ترین میٹنگ میں شریک ہوئیں جہاں اصولی طور پر اور متفقہ طور پر جنرل ضیاء اور مارشل لاء سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ اس کا باقاعدہ اعلان کراچی میں کیا جائے گا۔مارشل لاء کی پابندیوں کے باعث بیگم بھٹو نے شادی کے اس موقع سے فائدہ اٹھا یا اور حکومت کے تمام جاسوسی اداروں کو بے خبر رکھنے میں کامیاب ہو گئیں۔ دوسرے طرف شادی کے دن بینظیر بھٹو اپنی چھوٹی بہن صنم بھٹو کے ہمراہ گاڑی میں حیدرآباد کیلیے نکلیں تو تمام سرکاری ایجنسیوں نے ان کا حیدرآباد تک پیچھا کیا۔میں جب شادی کی کوریج کے لئے حیدرآباد پہنچا تو وہاں شادی کی جگہ کے باہر ایجنسیوں کے ان لوگوں کو دیکھا جو 70-کلفٹن کے باہر مستقل ڈیوٹی دیتے تھے ان کو وہاں دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ بینظیر وہاں آ چکی ہیں۔(بیگم صاحبہ کا مجھے پتہ تھا کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ نلنے سے ایک دن پہلے انہوں نے مجھے بلوا کر ایک چٹ پر لکھا لاہور کا فون نمبر دیا تھا جس پر کال کر کے میں نے صرف یہ بتانا تھا کہ خالہ فلاں گاڑی سے لاہور پہنچ رہی ہیں اس کو اسٹیشن سے لے لینا۔(مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ فون نمبر لاہور کے رانا شوکت محمود کے ایک رشتہ دار کا تھا)
شادی کے دن مجھے امن اخبار کے جناب اجمل دہلوی نے بلایا اور کہا کہ اکاؤنٹینٹ سے حیدرآباد جانے اور واپسی کے کرایہ کے پیسے لے لو اور حیدرآباد جا کر مہتا ب چنہ کی شادی کی تصویریں بنا کر رات کو ہی واپس آ جاؤ ۔ مجھے اس کے علاوہ کوئی اور پیسے نہیں دئے گئے۔ میری تنخواہ ویسے ہی بہت تھوڑی تھی تو میں بلکل کنگال ہوتا تھا۔اس کے علاوہ دفتر میں فلم رول بھی ختم تھے میرے کیمرے میں تقریباً دس شاٹ کا ٹکڑا لوڈ تھا۔ اچانک بتایا لہٰذہ میں ایسے ہی اٹھ کر حیدرآباد چل دیا ۔ وہاں بارات آ چکی تھی نکاح ہو چکا تھا مگر کھانا شروع نہیں ہوا تھا دلہا کو دلہن کے پاس لایا جا رہا تھا ۔ فوٹوگرافر بہت کم تھے کراچی سے میرے علاوہ ڈان کے فوٹو گرافر ابراہیم ویانی تھے ۔میں نے دلہا دلہن کے ایک دو شاٹ بنائے اور ہاتھ روک لیا کیونکہ میرے پاس صرف دس شاٹ تھے۔ اتنی دیر میں خواتین والے حصے میں ہلچل مچ گئئ میں نے دیکھا کچھ خواتین بینظر اور صنم کو اسٹیج کی طرف لا رہی ہیں ۔انہو ں نے آکر دلہا دلہن کو مبارکباد دی اور انکے ساتھ بیٹھ گئی ہم فوٹوگرافرز نے تصاویر بنانا شروع کر دیں۔میں نے تو چند تصاویر کے بعد ہاتھ روک لیا مگردوسرے لوگ کچھ دیر بناتے رہے اس کے بعد بینظیر اور صنم اٹھ گئیں ۔ بی بی نے مجھے دیکھ کر کہا آپ بھی آئے ہوئے ہیں میں نے کہا کہ جی اور میں ابھی واپس بھی جا رہا ہوں شاید اخبار چھپنے سے پہلے پہنچ جاؤں تو یہ تصویر آج ہی چھپ جائے گی۔مگر جب میں کراچی پہنچا تو اخبار چھپنے جا چکا تھا۔مہتاب چنہ جو شادی کے بعد مہتاب اکبر راشدی کہلائیں ۔ سندھ بیوروکریسی میں ایک عرصہ گذارنے کے بعد ریٹائر ہوئیں تو پیپلز پارٹی کے حلقے یہ توقع کر رہے تھے یہ وہ سیاست شروع کریں گی تو پیپلز پارٹی میں ہی شامل ہو ں گی مگر وہ شاید اپنے شوہر اکبر راشدی کی پیر پگاڑو سے رشتہ داری کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل میں شامل ہو گئی تھیں۔مگر اب وہ اپنے شوہر اکبر راشدی اور دیگر ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی ہیں
دیر آید درست آید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر