ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورونا پہلے سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے ۔گزشتہ دو سال سے کورونا نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کررکھی تھی مگر اب یہ خواص کو بھی متاثر کرنے لگا ہے ۔ ہماری سیاسی اشرافیہ پہلی بار کورونا سے متاثر ہورہی ہے لہذا اس کا سدباب از حد ضروری ہے ۔شرم و حیا سے عاری اور مصلحتوں سے بیزار بے وقت اپنی موجودگی کا احساس دلانے والا یہ بدلحاض وائرس کالے پانی بھیجے جانے کی سزا کا مستحق ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی واپسی کے بعد انگلینڈ کے انکار کے صدمے کی شدت میں کمی بورس جانسن کے بلین ٹری پروگرام کی تعریف نے کی ہی تھی اور حاشیہ نشین ناچ ناچ کر گھنگرو توڑنے ہی والے تھے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی کورونا ویکسین لگوانے کی خبر نے سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والا کام کیا۔
نا کورونا ہوتا نا ہی اس کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن کا سلسلہ چل رہا ہوتا نا ہی میاں نواز شریف کی ویکسی نیشن کی خبر چلتی تو ایسے میں بورس جانسن کی تعریف کے مزے لیئے جاتے مہنگائی کا رونا روتی منہ بسورتی عوام کو بتایا جاتا کہ چھوڑو روزی ، روٹی کا رونا یہ دیکھو یہ ہوتا ہے لیڈر یہ ہوتا ہے لیڈر کا ویژن کہ جس کے ویژن کی تعریف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سربراہ کررہے ہیں ۔اور بھوکی ننگی عوام اپنی بھوک کو بھول کر خوشی سے تالیاں بجانے لگتی ۔مگر خدا غارت کرئے اس نامراد وائرس کو جس کی بدولت جشن کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ہمارے ارباب اختیار کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان کو حالات اور عوام کے بعد وائرس بھی اچھا نہیں ملا۔البتہ دوستوں سے تحائف اچھے ملے ہیں شائد اسی لیئے توشہ خانے کی تفصیلات دینے سے انکاری ہیں کہ دوستوں کے تحائف کی تشہیر قمیض میں دو سوراخ والے منسکر المزاج حاکم کو پسند نہیں ہے
جبکہ اپوزیشن ہے کہ توشہ خانہ پر بھی بات کا بتنگڑ بنا رہی ہے ۔ تہذیب سے عاری اپوزیشن کو علم نہیں کہ تحائف کی نیلامی نہیں کی جاتی ان کو کسی دوست کی محبت کی نشانی سمجھ کر دل سے لگا کر رکھا جاتا ہے۔مگر اس عہد ناگوار میں کون اپوزیشن کی اخلاقی تربیت کا فریضہ سرانجام دے کون سکھائے کہ مہذب ہونا کیا ہوتا ہے ۔روایات کیا ہوتی ہیں دوستی کی قدریں کیا ہوتی ہیں ۔اب ہر بات تو سیاست کرنے کے لیے نہیں ہوتی ۔مگر اپوزیشن ہے کہ صرف سیاست کرنا جانتی ہے اور سیاست کررہی ہے ۔خدا جانے کب اس اپوزیشن کو عقل آئے گی ۔بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کپتان کو اپوزیشن بھی اچھی نہیں ملی ۔
اب اسی ویکسی نیشن کے معاملہ پراپوزیشن کے رویہ کو دیکھ لیں ۔نادرا ریکارڈ کے مطابق لندن میں سکونت پذیرنواز شریف نے 22 ستمبر کو لاہور کے کوٹ خواجہ سعید ہستپال کے ویکسی نیشن سینٹر میں پہلی ڈوز لگوائی ہے ۔ میاں نواز شریف کو ویکسین کی پہلی ڈوز لگائے جانے کا اندراج ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے ویکسینیٹر نوید الطاف نے شام چار بج کر پانچ منٹ پر کیا ہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف کے عدالتی ریکارڈ میں موجود شناختی کارڈ نمبر سے جب 1166 پر میسج کیا گیا تو وہاں سے جوابی میسج ملا کہ انہیں سائینوویک ویکسین کی پہلی ڈوز لگائی جاچکی ہے اور دوسری ڈوز کےلیے 20 اکتوبر کی تاریخ دی جارہی ہے۔
میڈیا پراطلاعات آںے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ٹوئیٹر پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف ویکسین سکینڈل میں ملوث ویکسینیٹرز کو صرف معطل ہی نہیں بلکہ جیل میں ڈالا جائے گا۔مطلب یہ کہ فیک انٹری کرنے والے ملازمین کو معافی نہیں ملے گی۔گو کہ قانون حرکت میں آ چکا ہے مگر اپوزیشن اس پر بھی سیاست کررہی ہے۔اب مریم نواز شریف کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے اس خبر پرتشویش ہوئی اگر یہ آپ کا سسٹم ہے کہ جعلی طریقے سے ویکسین کا اندراج کیا جارہاہے تو اس کا عالمی ردعمل آسکتا ہے۔
اور تو اور کچھ لفافہ صحافیوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر نادرا پورٹل پر اس طرح ویکسی نیشن کا اندراج ہوسکتا ہےتو حکومت الیکٹرانک ووٹنگ پر عوام اور اپوزیشن کو مطمئن کیسے کرئے گی ۔یہ الزام بھی لگایا گیا کہ دو سے تین ہزار روپے میں ملک بھر میں جعلی ویکسی نیشن کا اندراج ہورہا ہے۔یہ سوالات نہیں بلکہ وطن عزیز کے خلاف عالمی سازش کا بیانیہ ہے جو اپوزیشن اور چند نام نہاد صحافیوں نے اپنایا ہوا ہے ۔یہ حکومت کو بدنام کرنے کی ایک گھناونی سازش ہے ۔اور تو اور اپوزیشن کورونا کی مد میں ملنے والی امداد کے استعمال پر بھی شک کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تفصیلات کا تقاضہ کرتی رہی ہے ۔اب ایسی اپوزیشن کے سوالوں کے جواب کون دے اور کیوں دے ۔
جواب تو افغانی جنرل مبین کی باتوں کا بھی نہیں دیں گے۔وہ بھی اپوزیشن کی زبان بول رہا ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ عوام ، کورونا ، اپوزیشن کے بعد ہمارے کپتان کو ہمسائے بھی اچھے نہیں ملے ایک ہمسایہ فون نہیں سنتا تو دوسرا اپوزیشن کی زبان بول رہا ہے اور مداخلت کا الزام لگا رہا ہے ۔حالانکہ کپتان نے کے پی کے کی گرینائٹ مائنز کے ٹھیکہ سے لے کر آٹا ، چینی ، ادویات ، پٹرول ، کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہونے تک مداخلت نہیں کی یہ تو ناہنجار اپوزیشن نے شور مچایا تو تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دینی پڑیں۔مگر اپوزیشن ہے کہ اس کا شور ہی کم نہیں ہورہا ۔ کیونکہ اپوزیشن کو علم ہےکہ یہی پالیسیاں رہیں تو دنیا بھر سےلوگ روزگار کی تلاش میں یہاں آئیں گے اور اپوزیشن یہ ترقی نہیں چاہتی ۔خیرایک صفحے پر موجود ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کی کسے فکر ہے۔اپوزیشن کان کھول کر سن لے کہ کپتان مافیاز کے خلاف ڈٹ کے کھڑاہے اور اسی طرح کھڑا رہے گا اپوزیشن چاہے جتنا مرضی شور مچا لے واویلا کرلے ۔قصہ مختصر کچھ نہیں ہونے والا اور حکومت اسی طرح محنت کرتی رہے گی ۔رہی بات میاں نواز شریف کی ویکسی نیشن کی تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا میاں نواز شریف 20 اکتوبر کو دوسری ڈوز لگوائیں گے ؟
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر