وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’خدا حشر میں ہو مددگار میرا‘ نیز حشر سے پہلے اس کرہ خاکی پر مجھے پارسائی کی بے رنگی، نا انصافی کی بے معنویت اور انقلاب کے بے بصر خروش سے محفوظ رکھے۔ دراصل ان دنوں مجھے کارل مارکس یاد آ رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے اس مفکر بے بدل نے ایک چشم کشا سطر قلم بند کی تھی۔ پہلے لکھا، ’تاریخ خود کو دہراتی ہے۔‘ اور پھر کچھ سوچ کر چند لفظ بڑھا دیے، ’تاریخ پہلے المیے کی صورت میں اپنی جھلک دیتی ہے اور پھر مضحک طربیے کے روپ میں نمودار ہوتی ہے‘ ۔
مارکس نے صنعتی یورپ کے پھیلتے ہوئے آفاق میں آنکھ کھولی تھی۔ انیسویں صدی ایک طرف تحقیق، دریافت اور ایجاد کے سہ دھارے دریا سے سیراب ہو رہی تھی، وسیع پیمانے پر تعلیم پھیل رہی تھی، توہمات کے پردے چاک ہو رہے تھے۔ نوآبادیات کی استحصالی یافت سے یورپ کی تجوریاں پھٹی پڑ رہی تھیں۔ کارخانوں میں بندہ مزدور کے اوقات تلخ تھے، دوسری طرف انقلاب فرانس کے بعد کی دنیا میٹرنخ، نیپولین سوم، گلیڈ سٹون اور بسمارک کی تزویراتی سیاست سے جونجھ رہی تھی۔
اس نئی دنیا کے المیے کی جھلک تو کارل مارکس کے احاطہ نگاہ میں تھی، آئندہ صدیوں میں تاریخ کے مضحک اعادے میں پوشیدہ المیے کو جاننا مارکس کے لئے ممکن نہیں تھا۔ منڈیوں کی دوڑ اور اسلحے کی تجارت نے ان گنت جنگوں میں روح انسانی پر کیا کچوکے لگائے۔ جمہوریت اور مساوات کے نام پر سرد جنگ میں کیا کھیل کھیلے گئے۔ نوآبادیات ختم ہو گئیں مگر اپنے پیچھے خود مختاری کے نام پر مقامی استبداد کا بے رحم دیوتا چھوڑ گئیں۔ تعصب اور جہالت نے سرمائے اور اجارے سے گٹھ جوڑ کر لیا۔
1900 میں ڈیڑھ ارب کی آبادی 2020 میں سات ارب 80 کروڑ کو جا پہنچی۔ دو عالمی جنگوں کے باوجود نسلی اور صنفی تعصب کی جڑیں موجود ہیں۔ قدیم زمانوں کا نعرہ تھا، بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد۔ نئے زمانے کے نعرے ہیں، ہٹلر مر گیا، ہٹلر زندہ باد، میکارتھی مر گیا، ٹرمپ زندہ باد، سٹالن مر گیا، پوٹن زندہ باد، ولبھ بھائی مر گیا، مودی زندہ باد، یا پھر یہ کہ کالاباغ مر گیا، کالاباغ زندہ باد، علی ہذا القیاس۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، درویش ایک محتاط شخص ہے، سو کوس دور دریا کی خبر پاتے ہی پائنچے چڑھا لیتا ہے۔ کسی موجودہ حکومت کے خلاف زبان نہیں کھولتا۔ طاقت کی میزان پر نگہ موقع پرست گاڑے رکھنے سے آنکھیں پتھرا چکیں۔ جالب نے قلم سے آزار بند پرونے کی تجویز دی تھی، آپ کے نیاز مند نے قلم ہی کو دریا برد کر دیا ہے۔ کمپیوٹر کا ایک خاص کی بورڈ تیار کروایا ہے جو براہ راست سرکاری پورٹل سے براستہ منظور شدہ سائبر کنکشن ہدایات لیتا ہے مبادا تازہ ترین بیانیے سے سر مو انحراف کا جرم وقوع پذیر ہو۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں جہاں قلم کے بزعم خود شاہسوار ملٹن کی جنت گم گشتہ سے نکالے گئے ابلیس اور اس کے چپڑ قناتیے رفقا کی طرح خاک پر اوندھے منہ پڑے ہیں، درویش چین کی بنسی بجاتا ہے۔ مدیر بھی خوش اور ماورائے مدیر اصحاب قضا و قدر بھی راضی۔ رہا پڑھنے والا، وہ غریب وقفے وقفے سے سر اٹھا کر ایک آہ سرد کھینچتا ہے اور درویش کے لکھے پر دوہتڑ مار کر سوال کرتا ہے کہ مردہ لفظوں، دور از کار واقعات اور سرقہ افکار کے اس کوہ بے ترتیب سے کیا سمجھے۔
درویش نے یہ روپ کسی ذاتی منفعت کے لئے اختیار نہیں کیا۔ آپ آگاہ ہیں کہ موہ مایا سے اس حقیر کو کبھی تعلق نہیں رہا۔ اس کے باوجود عوام الناس، کہ کم عقل ہوتے ہیں، حقیر کی تحریر دیکھتے ہی پکار اٹھتے ہیں کہ خدا اسے اور حقیر کرے۔ یہ شخص خبر نہیں دیتا، سچ نہیں لکھتا اور حقائق سے نظریں چراتا ہے۔ دعا ہے کہ ملامت کی راہ سلوک پر اس عاجز کی یہ دور اندیشی توشہ آخرت قرار پائے۔
میرے ایک مہربان ہیں وسعت اللہ خان۔ ایک مدت سے کاغذ قلم سے نان جویں کما رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک تحریر میں فاشزم کا لفظ کچھ ڈھب سے استعمال کیا کہ خیر اندیشوں کو طرح طرح کے گمان گزرے۔ تاہم دوست سے تعلق دیرینہ آڑے آیا۔ یہ وضاحت البتہ مناسب معلوم ہوئی کہ فاشزم کو ہمارے گردوپیش سے کچھ لینا دینا نہیں۔ آئیے آپ کو فاشزم کے کچھ حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ 1932 میں جرمنی کے انتخابات میں ہنڈن برگ نے 53 ÷ جب کہ ہٹلر نے 36.8 ÷ ووٹ لئے تھے۔
تاہم انتخابات کے بعد کچھ ایسے زمینی حقائق نمودار ہوئے کہ 30 جنوری 1933 کو ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کر دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہردلعزیز رہنما عمران خان نے 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں شفاف کامیابی حاصل کی تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ہٹلر نے 23 مارچ 1933 کو ملک کے غیر معمولی حالات کے مدنظر Enabling Act منظور کروایا جس کی رو سے حکومت کو قوانین نافذ کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی منظوری سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔
یہ ایک فاشسٹ اقدام تھا۔ ہمارے ہاں حکومت اور حزب اختلاف حسب ضرورت اتفاق رائے سے قانون سازی کر لیتی ہیں۔ بھلے ایک دن میں 20 قوانین ہی کیوں نہ منظور کرنے پڑیں۔ بہرصورت یہ جمہوری رکھ رکھاؤ ہے۔ جرمنی میں ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے چار ہفتے بعد پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں آگ بھڑک اٹھی۔ حکومت نے اس کی آڑ میں نئی پابندیاں لگا دیں۔ ہمارے ملک میں وزیر ریلوے اعظم سواتی نے الیکشن کمیشن کو آگ لگانے کی تجویز ضرور دی ہے لیکن آگ لگائی نہیں۔
لہذا یہ تقابل بھی بے بنیاد ہے۔ ہٹلر کے وزیر برائے پروپیگنڈا گوئبلز نے اخبارات، موسیقی، ادب، ریڈیو اور فلم پر کڑی سنسرشپ نافذ کر دی تھی۔ ہمارے محترم فواد چوہدری پروپیگنڈے کی بجائے اطلاعات کی وزارت چلاتے ہیں نیز سنسرشپ کی بجائے میڈیا کی ڈویلپمنٹ چاہتے ہیں۔ کتنا واضح فرق ہے۔ فاشزم اور ہمارے جمہوری حکومت میں۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس کے بیان کردہ تاریخ کے مضحک اعادے میں المیہ تلاش کرنے والوں کے خلاف ففتھ جنریشن وار فیئر نہایت ضروری ہو چکی ہے۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر