حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی دو ملتانی ملیں گے وہ چند لمحوں یا لمبی ملاقات کے دوران ساعتوں کے وقفہ سے ملتان کی مٹی کو نم آنکھوں سے ہی یاد کرتے رہیں گے۔
آپ دو ملتانیوں کو سکندر اعظم کے ملتان پر حملہ پر تبادلہ خیال کے دوران بھی۔ دال مونگ‘ ڈولی روٹی‘ چانپوں، آلو چھولے بھیں کا ذکر کرتے ہوئے دیکھ سن لیں گے۔
مجھ سے ملتانی کو پکا یقین ہے کہ اگر سکندر اعظم‘ محمود غزنوی‘ محمد بن قاسم اور رنجیت سنگھ کو ملتان کے دال مونگ‘ آلو چھولے‘ ڈولی روٹی اور چانپوں کے ذائقہ کے ساتھ حاجی ( حاجی یارو ) یار محمد مرحوم کے فالودہ اور حافظ کے ملتانی سوہن حلوہ کے ساتھ خونی برج والے مرحوم چاچا باری کی حلوہ پوڑی کا ذائقہ لگ گیا ہوتا تو وہ اس شہر میں خون کی ندیاں بہانے‘ گردنیں مارنے اور عمارات جلانے کی بجائے لوہاری گیٹ سے براستہ بوہڑ گیٹ‘ پاک گیٹ‘ حرم گیٹ‘ چوک خونی برج‘ دہلی گیٹ اور دولت گیٹ پر کہیں نا کہیں ‘ دال مونگ‘ حلوہ پوڑی‘ آلوچھولے بھیں ، چانپوں‘ فالودے اور سوہن حلوے کی دکانیں کھول کر بیٹھ جاتے اور شام کو موتئیے کے ہار لئے گھروں کو سدھارتے۔
موتئیے کے ہار ملتانیوں کی بہت بڑی کمزوری ہیں۔
ہائے اب وہ ملتان رہا نہ ملتانی بٹوارے نے بہت کچھ بدل دیا ہے پھر بھی کچھ نشانیاں باقی ہیں۔
ملتانی بھی باقی ہیں مگر جو ملتان بٹوارے سے قبل یا پھر یوں کہہ لیجئے 1970ءکی دہائی کے اختتام تک تھا اب کہیں کسی نکڑ پر ملتا تو ہے لیکن بچھڑ لمحہ بھر کے بعد جاتا ہے۔
پر ہلاد کا ملتان صدیوں سے نہیں ہزاریوں سے آباد ہے۔
راجہ پر ہلاد معلوم تاریخ کا پہلا ملتانی توحید پرست حکمران تھا۔
ملتان اس سے بھی پہلے کا شہر ہے۔
جدید تاریخ کی تحقیق اسے سات سے دس ہزار سال کے درمیانی عرصہ کاشہر بتاتی ہے۔
جبکہ ہندوﺅں کی دیو مالائی تاریخ اس سے بھی قدیم وقت کا شہر۔
جو بھی ہے ملتان تھا۔ ہے اور ملتان ملتان ہی رہے گا۔
عجیب دلنواز و محبوب اور مروتوں کا امین شہر ہے۔
حملہ آور آئے ‘ ملتانی قتل ہوئے۔ شہر تاراج ہوا‘ بعضوں نے جلایا بھی۔
جلانے والوں میں ایک مسلم حملہ آور محمود غزنوی بھی شامل تھا
"چلیں مذہبی اشتراک کی وجہ سے اسے رعایتی نمبر دے دیتے ہیں”۔
ویسے تاریخ کے طالب علم کے طور پر میں حیران ہوتا ہوں ‘ محمود غزنوی نے ملتان پر حملہ کیوں کیا یہ تو مسلمان ریاست تھی۔
لیکن جب تاریخ کا اگلا ورق دیکھتا ہوں تو جواب ملتا ہے۔
اس شہر دلنواز کے چند مولویوں نے ریاست کے اسماعیلی حکمرانوں سے اپنے مذہبی اختلاف کا حق یوں چکایا کہ محمود غزنوی کو ملتان پر حملہ کی دعوت دے دی۔
محمود ملتان پہنچا لاﺅ لشکر کے ساتھ اور پھر وہی ہوا جو حملہ آور کرتے ہیں کیونکہ تلواروں‘ نیزوں‘ بھالوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
ملتان لوٹا گیا‘ جلایا گیا‘ اجاڑا گیا 30ہزار سے زیادہ مرد و زن اور بچے غلام بنا کر لے جائے گئے غزنی میں ایک ملتانی چوک بنا جہاں اگلے کئی برس تک ملتانی غلام اور غلام زادیاں فروخت ہوئیں۔
ملتانیوں کا حوصلہ ہے انہوں نے اجڑے شہرکو پھر سے بسا لیا۔
یہ بھی ملتان ہی تھا جس نے سکندر اعظم کی فوجوں کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا روایت ہے کہ سکندر اعظم کو زہریلا تیر ملتان میں ہی لگا تھا جو پھر اس کی جان لے گیا۔
سات سے دس ہزاریوں کے درمیان اجڑتے بستے اس شہر کا مزاج ہمیشہ صوفیانہ رہا۔
محبت‘ ایثار‘ علم دوستی ملتانیوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ مہمان نواز ایسے ہیں کہ دل جیت لیتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو شاہ شمسؒ‘ بہاوالدین زکریا‘ گیلانی و بخاری اور گردیزی سادات کے بزرگواروں کے ساتھ افغانستان سے اترے خاکوانی ۔ علیزئی اور بہت سارے دوسرے اس شہر کو اپنے قیام کے لئے کیوں منتخب کرتے۔
یہ صوفیا کا شہر ہے اس میں پیر بھی بہت ہیں۔
چند برس ادھر ایک کالم میں صوفی اور پیروں کے خانقاہی نظام اور خانقاہوں کے حوالے لکھا تھا۔
مختصر یوں کہ صوفی جمع اور طمع سے محفوظ رہتا ہے۔ خود کو محکوم زمین زادوں کے ساتھ جوڑ کر رکھتا ہے۔
پیر صاحبان اہل اقتدار و بالا دست طبقات اور رعایا کے درمیان وسیلے بنتے ہیں۔
ملتان کی مٹی میں صوفیا بھی آرام فرما رہے ہیں اور پیر صاحبان بھی۔ شاہ شمسؒ اور حافظ شاہ جمالؒ صوفیا کے سرخیلوں میں سے ہیں اور بہاوالحق زکریا ملتانیؒ پیران کرام کے۔
جناب زکریا ملتانی سہروردی سلسلے کے باوا آدم ثانیؒ ہیں یہ سلسلہ ان کی ذات سے زیادہ معروف و مشہور ہوا۔ اس سلسلے کے بانی شہاب الدین سہر وردیؒ 30یا32 سال کی عمر میں شہید ہوگئے تھے۔
قبروں اور خانقاہوں میں سوئے ہوئے ملتانی چاندوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ سانول مل اور مول راج بھی تعارف بنے۔ افغان نژاد گورنر نواب مظفر خان بھی۔
لیکن ملتان اور ملتانی اپنا تعارف خود ہیں۔
اپنی تاریخ تہذیب و تمدن روایات کے وارث بھی خود ہیں۔
کہتے ہیں کبھی موجودہ سرکلر روڈ والی جگہ پر دریائے راوی بہتا تھا۔ بات پرانی ہے بہت پرانی ہزاروں سال پرانی کتابوں میں لکھا ہے۔
” کتابوں کا لکھا ہی تو مانا ہم جیسوں نے”
سو یہ بھی مان لیا۔
راجہ پرہلاد کے والد کے دور بلکہ اس سے قبل کے سورج کنڈ تلاب کو اس خطے میں کبھی گنگا جیسا تقدس حاصل تھا۔
پرہلاد کا دانش کدہ جسے بٹوارے کے بعد سے پرہلاد مندر کہا جانے لگا تھا بابری مسجد کے بدلے میں ریزہ ریزہ کردیاگیا۔
یہ دانش کدہ اس خطے میں توحید پرستوں کی اولین درسگاہ تھا۔
سچ یہ ہے کہ ملتان ملتان تھا اور ملتان ہی ملتان ہے۔
ملتانی اپنے شہر میں رہتے ہوں یا رزق سے بندھی ہجرتوں کے اسیر ہوں ان کے دل اور آنکھوں سے ملتان نہیں نکلتا۔
دو ملتانی جب بھی ملتان سے کچھ یا زیادہ فاصلے پر ملیں گے تو ذکر شہر یاراں کے دوران ان کی آنکھیں نم ہو جائیں گی۔
ملتانی اپنی ہی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔
فقیر راحموں کے بقول
تخلیق انسان میں شامل جو تینوں چیزیں ہیں ملتانیوں کی وہ تینوں چیزیں اپنی ہی تھیں۔
” مٹی‘ پانی اور آگ“۔
ملتان خود بھی ایک طرح کا صوفی ہی ہے اپنے فرزندوں کو امتحان سے بچا لیتا ہے۔
کیا شہرہے تاریخ اور زمین پر روشن و قائم اور ملتانیوں کے دلوں میں آباد ملتان۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر