گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا ہمارے ڈیرہ شہر کے ارد گرد بے شمارجھاڑیاں اور درخت تھے جن پر شہد کی مکھیاں چھتے بناتیں اور کوئل۔بلبلیں۔خمریاں اور طرح طرح کے پرندے گیت گاتے۔ آم اور جامن کے اس ساون کے موسم میں اونچے درختوں سے کوئل کی آواز گونجتی رہتی ۔ ہم جامن کی اونچی خطرناک شاخوں سے جامن اتارتے ۔ چھوٹی مکھی کا شہد میں خود کیکروں سے اتارتا تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ شہد سے لبالب بھرا چھتہ تقریبا” کیکر کی چھوٹی انگلی برابر موٹی شاخ کو کاٹ کے میں اس طرح پکڑ لیتا جیسے آپ آئس کریم ہاتھ میں پکڑ کر کھاتے ہیں ۔ برکت کا زمانہ تھا اس میں شہد ٹپک رہی ہوتی تھی۔ اس چھتے کو ایک بڑے برتن میں رکھ کر چھری سے کاٹ لیتا۔ میرا پہلا کام یہ تھا کہ سرمہ کی سلائی کو تازہ شہد میں علیحدہ علیحدہ ڈالکر آنکھوں میں پھیرتا۔یہ دیہاتی وزڈم تھی جو ہمارے گاوں پہنچی تھی۔ دوسرا میری سب سے پسندیدہ چیز کیکر کی وہ شاخ تھی جس کے اردگرد چھ انچ چھتا لگا ہوتا۔شہد کو ماں کے حوالے کر کے اس ٹہنی کو میں اس طرح چوسنا شروع کرتا جیسے بچے قلفی چوستے ہیں۔آپ یقین کریں اس ٹہنی سے جو مٹھاس برآمد ہوتا وہ میرے دل میں اترتا جاتا اور میں ایک ایک گھنٹہ ٹہنی کو چوستا رہتا وہ آب زمزم کے چشمے کی طرح پھر فل ہو جاتا۔ اسی طرح جب ملتان میں رہائش کے دوران میں ایک ایک کلو جتنےموٹے سفید چونسا آم اول درجے کا خریدتا تو اس کی پتلی جلد کی اندرونی سطح آپ جتنا مرضی ہے چاٹتے جائیں مٹھاس ختم نہیں ہوتی۔ اب چھوٹی مکھی کی شہد اور وہ بڑا چونسہ آم ایکسپورٹ ہو جاتے ہیں ہماری قسمت میں کالا چونسہ اور موٹی شہد کی مکھی کا شہد رہ گیا۔ان دنوں پراسوں کیکروں کی جھاڑیوں کے نیچے بارش کے بعد کھمبیاں مل جاتیں اب وہ بھی نہیں دیکھیں۔بس اب ڈیرہ کراچی جیسے مہاندرے دیتا نظر آتا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر