نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حوا کی بیٹیاں || آفتاب احمد گورائیہ

ظہور اسلام سے پہلے عورتوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے تھے، اسلام نے تو عورت کو حقوق دئیے، عزت اور احترام دیا پھر یہ کون سا اسلامی معاشرہ ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۰

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلاں شہر میں فلاں شخص نے اپنی بیوی اور چار بچوں کی ماں کو تشدد کے بعد قتل کردیا، فلاں شہر میں بگڑے رئیس زادے نے اپنی خاتون دوست کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا، فلاں شہر میں چار سالہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا، فلاں شہر میں موٹروے پر گاڑی خراب ہونے کے بعد خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے زیادتی، فلاں مقام پر ایک دن پہلے دفن کی جانے والی خاتون کے ساتھ اوباش نوجوان کی زیادتی ملزم گرفتار وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ یہ سب خبریں یا واقعات کسی فلم یا ڈرامےکا حصہ نہیں بلکہ سچی خبریں ہیں جو ہم آئے روز سنتے ہیں۰ ان میں سے ہر خبر پہلے والی خبر سے زیادہ بھیانک، سفاکیت اور بربریت سے بھرپور ہے لیکن کہنے کو ہم ایک مہذب معاشرے میں رہ رہے ہیں، میں نے جان بوجھ کر یہاں اسلامی معاشرہ نہیں لکھا اگرچہ ہماری پچانوے فیصد آبادی مسلمان ہونے کا دعوی رکھتی ہے لیکن ہمارے عمل اور کردار سے ہم کسی طور پر بھی ایک اسلامی معاشرہ ہونے کا دعوی نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایک مہذب معاشرہ ہونے کا۰ ابھی میں نے ہمارے معاشرے میں موجود صرف ایک خرابی یعنی عورت کی تذلیل کا تذکرہ کیا ہے۰ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی دوسری خرابیوں کا تذکرہ تو ہم گاہے بگاہے کرتے ہی رہتے ہیں اور ویسے بھی ان سب خرابیوں کا تذکرہ کرنے لگیں تو اس کے لیے تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ پستی میں کیوں گرتے جا رہے ہیں اور ہر لحاظ سے ایک زوال پذیر معاشرہ کیوں بن چکے ہیں لیکن فی الوقت اس تحریر کا مقصد قدرت کے ایک انمول تحفے یعنی عورت کے ساتھ ہمارے معاشرے میں روا رکھا جانے والا رویہ ہے۰

ظہور اسلام سے پہلے عورتوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے تھے، اسلام نے تو عورت کو حقوق دئیے، عزت اور احترام دیا پھر یہ کون سا اسلامی معاشرہ ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۰ عورت کو اس کے حقوق اور عزت و احترام دینا تو دور کی بات یہاں تو عورت سے جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیا جاتا ہے۰ اگر ہم واقعی سچے عاشق رسول صہ اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کے دعویدار ہیں تو پھر کیوں چھوٹی چھوٹی بچیوں سے لے کر قبر میں لیٹی خاتون تک محفوظ نہیں؟ آپس کی لڑائی میں بھی گالی عورت کے نام کی ہی کیوں دی جاتی ہے؟ عورت کو عزت و احترام دینے کا دعوی کرنے والے عورت پرسفاکیت سے بھرپور تشدد کیوں کر رہے ہیں؟ ویسے تو عورت کا ہر روپ ہی خوبصورت، قابل تعظیم اور باعث احترام ہے لیکن ماں کے پاوں کے نیچے تو اللہ تعالی نے جنت رکھی ہے تو پھر عورت پر تشدد کرتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ اس عورت کے پاوں نیچے کسی کی جنت بھی ہے۰ عورت پر تشدد کرتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ یہ عورت کسی کی ماں، کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی ہے۰ غیرت کے نام پر ہمیشہ عورت ہی کیوں قتل ہوتی ہے؟ کیا مرد سب فرشتے ہیں؟ کیا کبھی کسی عورت نے بھی غیرت کے نام پر اپنے بھائی کو قتل کیا ہے؟ کیوں ہم دوہرے معیار کا شکار ہیں کہ مذہب کا سہارا لے کر بھی نشانہ بنے تو عورت اورمذہب سے دوری کے سبب بھی نشانہ بنے تو عورت۔۔۔ آخر کیوں؟

ویسے تو ہمارے اخبارات عورتوں کے ساتھ ہونے والے تشدد اور ظلم و زیادتی کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ہونے والے دو واقعات نے ایک دفعہ پھر سارے میڈیا کی توجہ عورتوں پر ہونے والے تشدد کی طرف مبذول کروا دی ہے۰چند روز پہلے حیدرآباد میں ایک خبیث شخص نے معصوم بچوں کے سامنے اپنی بیوی کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۰ ابھی اس واقعہ کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ اسلام آباد میں ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک بگڑے رئیس زادے نے ایک سابق سفارتکار کی بیٹی کو تین دن قید میں رکھ کر وحشیانہ تشدد بنانے کے بعد قتل کردیا۰ چونکہ قاتل کا تعلق اس کلاس سےہے جس کا قانون کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکا اس لیے اب اس قاتل کو نفسیاتی مریض اور پتہ نہیں کیا کچھ بتا کر بچانے کی کوشش کی جاری ہے اور قوی امید ہے کہ یہ سفاک قاتل جلد ہی جیل سے باہر ہو گا۰ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی کا بیٹا بے راہ روی یا بری سوسائٹی کا شکار ہو جائے تو والدین کہتے ہیں کہ چلو اس کی شادی کر دیتے ہیں اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ پڑے گا تو خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۰ یہ بہت بڑا ظلم ہے جو اس طرح کے والدین کسی دوسرے کی بیٹی کے ساتھ کرتے ہیں۰ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے لڑکے بعد میں اپنی بیوی کی زندگی بھی اجیرن بنا دیتے ہیں اور بات تشدد سے شروع ہو کر بعض دفعہ قتل تک جا پہنچتی ہے۰ ایسے والدین کو چاہئیے کہ اپنے بگڑے ہوئے بیٹے کی شادی کرنے کی بجائے اس کا نفسیاتی علاج کروائیں تاکہ کسی دوسرے کی بیٹی کی زندگی برباد نہ ہو۰

عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات عورت تمام عمر ہر قسم کا ظلم، زیادتی اور تشدد اس لیے بھی برداشت کرتی رہتی ہے کہ طلاق کی صورت میں بچوں کو لے کر کہاں جائے گی کیونکہ والدین بیٹی کی شادی کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو چکے ہوتے ہیں، بھائیوں کی شادیاں ہو چکی ہوتی ہیں اور عمومی طور پر عورت کا شوہر کے گھر کے علاوہ کوئی ٹھکانہ باقی نہیں رہتا جس کا بعض درندہ صفت لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عورت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۰

بیٹیوں کے والدین کو بھی چاہئیے کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے روشناس کروائیں تاکہ وہ بڑی ہو کر کسی بھی مشکل صورتحال میں اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکیں۰ جہاں ان کو گھر گرہستی کی تعلیم دیں وہاں ان کو یہ اعتماد بھی دیں کہ کسی مشکل صورتحال میں اگر معاملات سدھارے جانے کی کوئی امید باقی نہ رہے تو اپنا راستہ الگ کر لیں۰ دوسری طرف خبیث فطرت مردوں کو بھی چاہئیے کہ اگر کسی وجہ سے ان کے آپس کے مسائل ختم نہیں ہو رہے تو کسی کی بیٹی پر تشدد کرنے یا اس کی جان لینے کی بجائے علیحدگی اختیار کرلیں۰

ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ایک مردانہ تعصب پر مبنی معاشرہ ہے جس میں عورت کو نہایت کمزور اور ڈری سہمی مخلوق سے زیادہ اہمیت دی ہی نہیں جاتی۰ اگر کوئی عورت ہمارے نام نہاد معاشرے کی طرف سے تفویض کردہ کردار سے ذرا بھی بغاوت کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے فورا سزا تجویز کر دی جاتی ہے۰ پاکستان میں خواتین کے تحفظ اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالےسے قوانین تو موجود ہیں لیکن اس پر دیگر قوانین کی طرح عمل درآمد ایک خواہش سے بڑھ کر نہیں۰ جائیداد کی تقسیم سے بچنے کے لیے آج بھی بہت سے لوگ بیٹیوں کی شادی ہی نہیں کرتے یا پھر کوئی سا الزام لگا کر کاری قرار دے کر غیرت کے نام پر موت کی وادی میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ منافقت کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوگی کہ جہیز کے معاملے پر مرد حریص دکھائی دیتا ہے لیکن حق مہر کے معاملے پر اسے فوراً اسلام یاد آ جاتا ہے اور شرعی حق مہر پر اصرار کیا جاتا ہے۰

پاکستان میں عورتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کی روک تھام کے لیے جہاں پہلے سے موجود قوانین کو مزید سخت کرنے اور ان پر عملدرامد کی ضرورت ہے وہاں عورت کو کمزور اور کمتر سمجھے جانے والی سوچ کو ختم کرنا بھی بہت ضروری ہے۰ جب اسلام عورت کے لیے عزت و احترام کا درس دیتا ہے اور عورت کو برابر کے حقوق دینے کی تعلیم دیتا ہے تو خود کو اسلامی معاشرے پرمبنی ریاست سمجھنے والی ریاست میں عورت کا استحصال کیوں کیا جاتا ہے۰ ذرا سوچیئے

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

About The Author