نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’یہ بنگلہ دیش ہے پاکستان نہیں‘‘||سارہ شمشاد

اس سے پہلے کہ حالات مزید تلخ ہوں، حکومت پاکستان کا سافٹ امیج بہتر سے بہتر بنانے کے ساتھ خواتین کی عزت و ناموس کو یقینی بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھنا چاہیے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کرسکیں، یہی وقت کی آواز ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارہ شمشاد
بنگلہ دیش میں زنا بالجبر کے مرتکب 16افراد کو سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے یہ ریمارکس دیئے کہ یہ بنگلہ دیش ہے پاکستان نہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان میں 80خواتین سے جنسی فعل کا ملزم حیات آباد سکول کے پرنسپل کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔یہ دونوں خبریں پڑھ کر میرا دماغ مائوف ہوکر رہ گیا ہے کہ ہمارے ملک کی شناخت اب کس طرح سے ہورہی ہے کہ ہوس پرستوں کے گھنائونے فعل کی سزا میرے پیارے ملک کو بھگتنا پڑرہی ہے۔اسلامی ملک میں خواتین اور بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بحیثیت مسلمان اور پاکستانی میرا سر شرم سے جھک گیا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیسا غیرمحفوظ پاکستان دے کر جارہے ہیں جہاں شیرخوار بچی سے لے کر بوڑھی عورت تو کیا قبر میں لیٹی ہوئی عورت تک محفوظ نہیں حالانکہ ہم تو اس دین کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جس میں عورت ہر روپ میں قابل احترام ہے وہاں خواتین کی بے حرمتی کے بڑھتے ہوئے واقعات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہے ہیں۔
وطن عزیز کا یہ امیج مجھ سمیت کسی بھی پاکستانی کو کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔ دنیا9/11کے بعدپاکستان کو دہشت گرد ملک کے ساتھ بم دھماکوں والے ملک کے طور پرجانتی تھی مگر آفرین ہے پاک فوج اور میری بہادر قوم پر جس نے دہشت گردی کے خلاف پرائی جنگ میں لازوال قربانیاں دے کر دشمنوں کو چاروں شانے چِت کردیا اور اب جبکہ وطن عزیز کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں تو ایسے میں پاکستان کی خواتین سے زیادتی والے ملک کے طور پرپہچان کو کسی طور قبول نہیں کیا جاسکتا۔
ماضی میں عمران خان پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا تھااور اب جب وزیراعظم نے خواتین کے لباس بارے بات کی تو لبرل ازم کے دعویدار اسے قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ وزیراعظم کے بیان پر کرائے کے ٹھیکیدار بھی میدان میں آگئے اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کرکے عمران خان کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ میں کسی طور عمران خان کی حمایتی ہوں اور نہ ہی پی ٹی آئی کی ترجمان کہ وزیراعظم کے بیان کا دفاع کروں لیکن میرے دن نے عورت کے لئے جو حقوق و فرائض متعین کئے ہیں اس کے سامنے تمام دلیلیں بے کار ہیں۔
تاہم جہاں تک وطن عزیز میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا تعلق ہے تو اس کا ذمہ دار میڈیا اور موبائل ہے جس نے پوری دنیا کو صرف ایک کلک کے فاصلے پر کردیا ہے۔ آج ہمارے ہر بچے کے پاس بہترین کوالٹی کے مابائل ہیں اور وہ والدین سے پرائیویسی فراہم کرنے کی بھی بات کرتے ہیں۔ اب کوئی والدین اور بچوں سے پوچھے کہ چند دہائیاں قبل تو ایسی صورتحال نہیں تھی اس وقت تو نہ موبائل تھا اور نہ ہی میڈیا اس قدر بے لگام ۔ انتہائی معذرت کے ساتھ آج ہمارے ڈراموں میں جو کلچر دکھایا جارہا ہے پہلی بات تو یہ کہ وہ کسی طور پاکستان کا کلچر نہیں، دوسرا یہ کہ اس قسم کی مادر پدر آزادی دکھاکر ہم نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ یہ سب باتیں غور طلب ہیں اس لئے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر کیس ایک طبقے یا فریق کو موردالزام ٹھہرانا کسی طور درست اپروچ نہیں۔آج ہمارا معاشرہ جس اخلاقی پستی کا شکار ہے بطور پاکستانی ہمیں اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرناچاہیے کہ چست پاجامے اور کھلے بال بنا دوپٹہ خواتین میرے پاکستان کے کلچر کی کسی طور عکاسی نہیں کرتیں۔
اب اگر یہاں مدارس اور سکولوں میں بچے بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بات کی جائے تو اس میں بھی بہت سی قباحتیں ہیں۔ تاہم ایک بات تو یہ ثابت ہوگئی ہے کہ مفتی عزیز انہیں مفتی لکھنا بھی انتہائی تکلیف دہ فعل ہے کہ انہوں نے جس طرح اپنے پیشے اور لقب کو بے توقیر کیا ہے اس سے لوگوں کا مولویوں مفتیان سمیت مدارس پر سے اعتماد یکسر ہی اٹھ گیا ہے اور اب وہ دبے لفظوں میں نہیں بلکہ برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسے دین کے رکھوالے ہیں کہ جن کے اپنے کرتوت تو انتہائی شرمناک ہیں لیکن مطالبہ وہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کئے جانے کا کرتے ہیں۔ استاد چاہے مدرسے کا ہو یا سکول کا، والد کا درجہ رکھتا ہے مگر ہوس پرست درندوں نے باپ جیسے Institution کا تقدس اس بری طرح پامال کردیا ہے کہ والدین کی اکثریت نے اب اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجنا ہی چھوڑدیا ہے۔ قرآن پاک کی تعلیم گھر پر دلوانے کے لئے قاری صاحب کا انتظام کیا جارہا ہے تو مائیں دروازہ کھول کر رکھتی ہیں کیونکہ ان شرمناک واقعات کے بعد کوئی ان پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ یہ درست ہے کہ ایک شخص کے فعل سے پورے ادارے یا محکمہ یا قبیلے کو برا نہیں کہا جاسکتا لیکن سچ یہی ہے کہ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ہر ذی شعور کو ایک کرب میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ خاندانی نظام جو کبھی ہمارا خاصا اور پہچان ہوا کرتی تھی آج ہم سے چھن چکی ہے جس کی بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔ وزیراعظم عمران خان جو پاکستانی معاشرے کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، کو معاشرے کی تباہ حالی پر بھی ذرا نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ اب اگر بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو پاکستان کا امیج مزید مسخ ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے تمام فریقین کو اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ جب تک رشتوں کا تقدس یقینی نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک بے چینی اور کھینچاتانی معاشرے میں جاری رہے گی۔
وطن عزیز میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ ماہر نفسیات کتھارسس کا نہ ہونا بھی قرار دے رہے ہیں کہ جب سے ضیاء الحق کی حکومت نے شراب اور طوائف خانوں پر پابندیاں عائد کی ہیں اس وقت سے یہ واقعات یکدم بہت بڑھ گئے ہیں اس لئے ایک یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اگر ان ممنوعہ سمجھنے والی جگہوں کو دوبارہ آپریشنل کردیا جائے تو بہت حد تک اس قسم کے واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔ اب یہ فیصلہ حکومت کو کرناہے کہ وہ کیا پالیسی اختیار کرتی ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جب تک اسلامی قوانین پر من و عن عمل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اس قسم کے قبیح فعل سے نمٹا نہیں جاسکتا۔
ہم جس دور میں پلے اور بڑھے ہمیشہ یہی سنا ہے بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ میرے والد صاحب میرے چھوٹے بھائی علی کو کہا کرتے تھے کہ اگر گلی سے محلے کی یاکوئی بچی گزرے تو اپنی نگاہ نیچی کرلیا کرو یہ تھی ہماری تربیت، مگر اب ہم اخلاقی پستی کے اس معیار تک پہنچ گئے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ رشتوں کا احترام کس طرح سے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا خاندانی نظام اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ اب کوئی اس کی اوورہالنگ کی طرف توجہ دینے کی کوشش بھی نہیں کررہا۔ اگر اس معاملے میں عوام یہ توقع کررہے ہیں کہ دیگر کاموں کی طرح یہ بھی حکومت ہی کرے گی تو اسے دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ معاشرے لوگ مل کر بناتے ہیں جہاں وہ ایک دورسے کو سماجی تحفظ فراہم کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ہاں تو اب کوئی بیٹی، بہن درندوں کی ہوس سے محفوظ نہیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اول تو خواتین سے زیادتی کے واقعات بہت کم کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور اگر کوئی بھولے بسرے ایف آئی آر درج رکوادیں تو پہلے تو پولیس ہی ان شرفاء کی پگڑیاں اچھال رہی ہےاور پھر رہی سہی کسر عدالتی نظام کی تاخیر پوری کردیتی ہے جس کا ثبوت حیات آباد کے پرنسپل کو باعزت بری کرنا ہے۔ کچھ عرصہ قبل زینب قتل کیس کا قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں شور مچا تو امید ہوچلی کہ اب ان درندوں کو موقع پر ہی سزا دے کر دوسروں کے لئے نشان عبرت بنادیا جائے گا مگر ہمارے ہاں اس قسم کے اہم کیسز میں شواہد کو ختم کرکے اور تاریخ پہ تاریخ دینے کے رواج نے ان درندوں کے اندر سے خوف نامی لفظ بھی ختم کردیا اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس قسم کی دلخراش خبریں اخبارات میں پڑھنے کو نہ ملتی ہوں اور ہم بحیثیت معاشرہ دل میں ہی ان درندوں کو لعن طعن کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ جب تک ان درندوں کو چوراہوں پر نہیں لٹکایا جائے گا اس وقت تک اس قسم کے شرمناک واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکتا اور اگر اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو معاملات جس سمت میں جارہے ہیں وہ پاکستان کی بدنامی اور سبکی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک طرف وزیراعظم پاکستان کا سافٹ امیج پیش کررہے ہیں تو دوسری طرف بنگلہ دیشی کورٹ میں پاکستان کا حوالہ جس شرمناک انداز میں دیا جارہا ہے اس کو پڑھ کر ہی ہول آجاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے اس کا امیج بہت اہم ہوتا ہے اس لئے خدارا اپنے ملک کے امیج کی بحالی کے لئے سب مل کر اپنے حصے کا کردار ادا کریں کیونکہ جس طرح چند روز قبل عبایا میں چلنے والی لڑکی کو موٹرسائیکل سوار کی جانب سے دھکا دے کر گرانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے اس سے موم بتی مافیا اور لبرل ازم کے ٹھیکیداروں کو انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات عائد کرنے کا موقع میسر آسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید تلخ ہوں، حکومت پاکستان کا سافٹ امیج بہتر سے بہتر بنانے کے ساتھ خواتین کی عزت و ناموس کو یقینی بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھنا چاہیے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کرسکیں، یہی وقت کی آواز ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author