نومبر 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اتنا سوچ کے کرنا کیا ہے؟||حسنین جمال

درختوں کی گھنی چھاؤں، خاص طور پہ املتاس کی، بوہڑ کی، دیکھیں کبھی انجوائے کر کے۔ چلتی نہروں کا پانی، لتا کا گانا، گرمیوں کی بارش اور اس کے بعد مٹی جو ایک دم خوشبو دیتی ہے۔ مطلب کیا کیا کچھ ہے جو مفت ہے!

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانے کی دعوت کا سات آٹھ ہزار بل دیتے ہوئے کبھی آپ نے سوچا نہیں ہو گا کہ اس میں چالیس پچاس بندوں کا لنگر ہو سکتا ہے۔ کسی امیر آدمی نے ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی لیتے ہوئے ایک لمحے کو بھی خیال نہیں کیا ہو گا کہ ان پیسوں میں ڈیڑھ سو نوجوان موٹر سائیکل لے سکتے ہیں۔ تیس چالیس کروڑ کا گھر خریدنے والے ظاہری بات ہے ان لوگوں کے لیے کیوں ہلکان ہوں جن کی چھت ہی کوئی نہیں۔

بڑے ملکوں نے چاند تک پہنچنے کی دوڑ میں اربوں ڈالر پھونک دیے، افریقہ میں فوٹوگرافر بھوک سے مرتے ہوئے بچے کے سر پہ منڈلاتے گدھ کی فوٹوئیں بناتے رہے۔ پہلی عالمی جنگ ہوئی، دوسری ہوئی، ویتنام کی ہوئی، پاکستان بھارت میں ہوئی، ایٹم بم بنے، اسلحہ پھونکا گیا، کیا یہ سب مفت میں ہوا؟

آپ دنیا میں چلنے والا کوئی بھی نظام دیکھ لیں، یہ طے ہے کہ ماڑے بندے کی پرواہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جب میں یہ بات لکھتا ہوں تو مکمل ذمے داری کے ساتھ مجھے لگتا ہے کہ میں شدید گھسے ہوئے ڈائیلاگ پھر سے چبا رہا ہوں۔

لکھنے کہ ضرورت اس لیے پڑی کہ انسٹاگرام پہ کہیں ایک سٹیٹس دیکھا جس میں درج تھا کہ ’مریخ کی طرف ایک اور پرواز اس بات کی گواہی ہے کہ بھوک سے تڑپتے انسانوں کی پرواہ کسی کو نہیں۔‘

دیکھیے، بات سمجھنے کی ہے۔ ہم لاکھ اخلاقی سبق پڑھاتے رہیں، امیروں کو عذاب کی دہائیاں دیتے رہیں، بادشاہوں کی عبرتناک کہانیاں سنائیں، ہم کسی کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی جیب سے خرچ کرتے ہوئے دوسرے کا خیال کرے۔

یہ قانون نظر آتا ہے فطرت کا۔ زور والا کمزور کو مارے گا، کھائے گا۔ ہم مرغیاں، بکری، گائے سبھی کچھ کھاتے ہیں، اگر ان کے پاس دماغ ہوتا اور ہم ’بے زبان‘ ہوتے، پھر وہ ہمارے تکے اڑاتے۔ ہمدردی، احساس، مدد، تعاون۔ یہ سب لفظ ہماری ڈکشنری میں اس لیے ہیں کہ ہم نے بولنا سیکھ لیا، سوچ کو زبان دے دی اور سمجھ لیا کہ یہ لفظ ہماری لغت میں شامل ہیں تو سب ان کو مان کر ان پہ عمل بھی کریں گے۔

ایسا ہوتا نہیں ہے۔ دنیا کا ہر اخلاقی ضابطہ سکھاتا ضرور ہے کہ اپنے سے ہلکی پوزیشن والے کا خیال رکھا جائے لیکن اس کے لیے قانون کوئی نہیں ہے۔

جیسے چوری پر سزا ہے، قتل پر سزا ہے، دھوکے پر سزا ہے۔ ان تمام سزاؤں پہ غور کریں تو سامنے کی بات ہے کہ ایک انسان جب کسی دوسرے سے اس کی ملکیت چھینے تب سزا ملے گی، ٹھیک ہے؟

اب ہمارے والے کیس میں آپ اگر چاند پر پلاٹ خرید لیں تو کیا میں آپ کو روک سکتا ہوں؟ آپ کا اپنا پیسہ ہے، جہاں اڑائیں جو مرضی کریں، ہاں، اس سے میری جائیداد یا ملکیت متاثر ہوتی تو میں کیس بھی کر دیتا۔ چونکہ ایسا نہیں ہے تو اس کے لیے کوئی سزا بھی نہیں ہے۔ اسی طرح نہ ان ممالک پر کوئی روک ٹوک ہے جو اندھا پیسہ مریخ کے مشن پہ لگاتے ہیں نہ اس جوان کے لیے کوئی حد ہے جو لمبرگینی خرید کے عیاشی کرتا ہے۔

تو کل ملا کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی اپنا پیسہ اپنی مرضی سے خرچ کرے، جہاں مرضی کرے، اسے کسی دوسرے کی مدد پہ مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سائنس ایسی ہے جو ہمیں کوئی نہیں سمجھاتا۔ انسانیت کے سبق ہماری گھٹی میں ڈالے جاتے ہیں لیکن اس پوائنٹ پر کبھی آتا ہی نہیں کوئی کہ یہ ’جرم‘ جو ہے اس کی سزا کسی کھاتے میں نہیں۔ کیوں نہیں؟ سزا نہیں تو کیا یہ کام غلط بھی نہیں؟ غلط ہے تو سزا کیوں نہیں؟

مجھے لگتا ہے چونکہ دنیا میں غربت زیادہ ہے، غیر مطمئن لوگ زیادہ ہیں اس لیے ان کہے قانون بھی غریب بناتے ہیں، اخلاقیات بھی ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اقدار بھی وہی طے کرتے ہیں۔ جیسے میں اگر اپنی موٹر سائیکل پہ کہیں جا رہا ہوں، غلط مڑ جاؤں، کوئی پجیرو مجھے ٹکر مار دے تو سڑک پہ جمع ہونے والوں نے سو فیصد میری سائیڈ لینی ہے، کیوں؟
کیوں کہ میں ان جیسا ہوں گا۔

اس مسئلے پہ غور کریں، سوچیں۔ یہ ایک اوپن اینڈڈ سوال ہے۔ اسے آپ سب کے لیے یہیں چھوڑا۔ جو مجھے سمجھ میں آتا ہے وہ یہ کہ ہر علم، ہر فلسفہ، ہر سوال، سب کچھ چلتی سانس کا کھیل ہے۔
بجائے دوسروں کو دیکھ کر ان کے معاملات پر سوال اٹھانے کے، اگر ہم سے کسی کی مدد ہو سکتی ہے تو بس کر دیں چپ کر کے۔

باقی ابھی ہمارے پاس بہرحال کچھ چیزیں مفت بچی ہوئی ہیں۔ امیر ہو، غریب ہو، کسی ملک کا صدر ہو، کہیں دفتر میں چپڑاسی ہو، سب کے لیے ایک دم فری!

صبح صبح اگر آپ کے پاس وقت ہے، قریب کوئی جگہ ہے تو ننگے پاؤں گھاس پہ چلیں، آہا، آپ سے بڑھ کے بادشاہ کوئی نہیں ہے۔ اپنے پاؤں استعمال کرنے کی صلاحیت اور وہاں سے دماغ تک جاتا ایک ٹھنڈا سکون، سبحان اللہ! کیا ہو سکتا ہے اس سے بڑھ کے؟

پھولوں کی خوشبو کا معاملہ دیکھ لیں۔ ایک دم مفت۔ گلاب سے بڑی کوئی چیز دنیا میں ہو سکتی ہے فری؟ کیاری میں لگے ڈھیر سارے گلاب اور ان کی شدید خوشبو، موتیے کی مہک، چنبیلی کی ایسے سرسراتی ہوئی سیدھے اندر جاتی باس۔ یہ سب کچھ ایسا نہیں کہ اس پہ اوپر والے سوال قربان کر کے اپنی ناک کے واری صدقے ہوا جائے کہ وہ سلامت ہے؟

درختوں کی گھنی چھاؤں، خاص طور پہ املتاس کی، بوہڑ کی، دیکھیں کبھی انجوائے کر کے۔ چلتی نہروں کا پانی، لتا کا گانا، گرمیوں کی بارش اور اس کے بعد مٹی جو ایک دم خوشبو دیتی ہے۔ مطلب کیا کیا کچھ ہے جو مفت ہے!

شکر کریں آپ کسی ایسے ملک کے غریب نہیں جہاں آسمان تک دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ادھر تو لیٹیں چارپائی پہ اور شام سے جو گول نیلا گنبد دیکھنا شروع ہوں گے رات کو اسی میں ستارے لگ جائیں گے۔

اصلی گڑ، دیسی گھی، خالص دودھ، گھر کی مرغی کا انڈہ، یہ سب بھی استاد اگر مل رہا ہے تو سمجھیں موج ہے۔ زیادہ سوچنے سے اسی طرح کے سوال کھڑے ہوتے ہیں جیسے اوپر میں نے اٹھائے، اور سوال پرسکون دماغ کی موت ہیں۔

دماغ کا سکون مر گیا تو جسم بھی متاثر ہو گا۔ تھکن، چڑچڑا پن، بلڈپریشر، کوئی بھی مرض ایویں بیٹھے بٹھائے ہو جائے گا۔ اس سے یہ ہو گا کہ جو چیزیں مفت ہیں، ان سے بھی آپ ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ نہ خوشبو اچھی لگے گی، نہ ذائقے، نہ زمین، نہ آسمان۔

تو یار کیا ضروری ہے اتنا سوچنا؟
جو مل رہا ہے پکڑیں، دوسروں میں بھی بانٹیں، زیادہ مت بھاگیں، ایویں نہ سوچیں، گانے شانے سنیں، موسم انجوائے کریں اور پرسکون زندگی گزار کے مر شر جائیں۔ اللہ بیلی۔
یہ بلاگ پہلی مرتبہ انڈی پینڈنٹ اردو پر شائع ہوا تھا

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author