وزیراعظم کےمعاون خصوصی برائےفوڈسیکیورٹی جمشید اقبال چیمہ نےکہا ہے کہ
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا زرعی اصلاحات اور ترقی کا پروگرام دراصل کسان کی معاشی اور سماجی ترقی کا پروگرام ہے،
اس پروگرام کی منزل خوراک میں خود کفالت اور غربت کا خاتمہ ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورمیں منعقدہ میگاسیمینارسےخطاب کرتےہوئےجمشید اقبال چیمہ کا کہنا تھاکہ
وزیر اعظم کا پروگرام’ زراعت سے خوراک تک‘ کا بدلتا پاکستان بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے ،
پہلا حصہ پانی کی بچت ، دوسرا حصہ زرعی رقبے میں اضافہ اور تیسرا حصہ پھلوں اور سبزیات کی پیداوار میں اضافہ ہے۔
انہوں نے وزیرا عظم کے زراعت کی ترقی کے حوالے سے پروگرام کو فوڈ ، ویٹ اور فائبر پر مشتمل قرار دیتے ہوئےکہا کہ
پاکستان میں اس وقت 138ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہے جس میں سے صرف 13کروڑ ملین ایکڑ فٹ استعمال کیا جا رہا ہے
وزیراعظم کے پلان کے مطابق پانی کے استعمال کو بڑھا کر 26ملین ایکڑ فٹ کر دیا جائےگا اور اسی مناسبت سے اس کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے گی،
پاکستان میں کل 22کروڑ ایکڑ زمین کاشت کے لیے دستیاب ہے
جس میں سےصرف 5.5کروڑ ایکڑ زمین زراعت کے لیے استعمال ہو رہی ہے جس میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا،
اِسی طرح پاکستان کی آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے لہٰذا سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار کو اناج اور گیہوں کی پیداوار کے برابر لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیحات میں لائیو سٹاک ، پھلوں اور سبزیوں کی پیداور ، کپاس کی فصل کی بحالی، اناج کی پیداوار اور گنے کی بجائےشوگر بیٹ کی کاشت کی
حوصلہ افزائی کرنا ہے، زرعی اصلاحات کا آغاز جامع انداز سے شروع ہو گیا ہے، بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور سابق فاٹا میں ہزاروں ایکڑ اراضی قابل کاشت ہو گئی ہے،
سابق فاٹا کے علاقوں میں جہاں کی عوام دہائیوں تک دہشت گردی سے لڑتے رہے اب زراعت سے وابستہ ہو کر زیتون اور دیگر فصلیں اُگا رہے ہیں
،سولر ٹیکنالوجی کی مدد سے سابق فاٹا ،خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان کے علاقے سیراب اور آباد ہو رہے ہیں۔
جمشید اقبال چیمہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مستقبل کی خوراک کی ضروریات کو محسوس کیا،
وہ اکثر غذائیت کی کمی کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ عالمی معیارات کے مطابق ہمارے ہاں لوگ 38فیصد کم خوراکی کا شکار ہیں،
کہنے کو تو زرعی ملک ہے لیکن گندم ابھی تک امپورٹ ہو رہی ہے،حکومت خوراک میں خود کفالت کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ پر بھی توجہ دے رہی ہے
،7برس بعدٹیکسٹائل کے شعبے میں تین ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہوئی جسے بتدریج بڑھا کر 20ارب اور 26ارب ڈالر کر دیا جائے گا،
حکومت نے ٹیکسٹائل کی سبسڈی 66ارب سے بڑھا کر 115ارب روپے کر دی ہے،ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے بجلی اور گیس سستی کر دی ہے
اور مشینری کی امپورٹ کو فروغ دیا جارہا ہے،فوڈ پراسسنگ کا شعبہ بہت اہمیت کا حامل ہے
نہوں نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں زرعی تحقیق قابل تعریف ہے ،یونیورسٹی زرعی تحقیق سے پیدا ہونے والی کپاس،
شہد اور زیتون کو اپنے برانڈ سے مارکیٹ میں متعارف کروائے،پوٹھوہار کے خطے کو شہد کی وادی میں بدلا جا رہا ہے
اور صرف مارگلہ کے پہاڑوں سے 10ہزار ٹن شہد پیدا ہو رہا ہے،
فاٹا کے علاقوں میں زیتون کے 41لاکھ درخت کاشت کیے گئے ہیں
یونیورسٹی کے ماہرین کے لیے یہ عملی مثالیں موجود ہیں
اور انہیں چاہیے کہ وہ تحقیق کے شعبے میں پورے ملک کی رہنمائی اور قیادت سنبھالیں ۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون