نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چِٹھی میرے ڈھول نوں ۔۔پچاویں وے کبوترا ||گلزار احمد

میں جب چوتھی پانچویں کلاسں میں گیا تو گاٶں والوں کو خطوط نویس ہاتھ آ گیا۔ جن لوگوں کے بچے فوج یا کسی اور ملازمت میں باہر تھے وہ مجھ سے خط لکھواتے جن میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے بچپن کے زمانے ہمارے گاٶں میں نہ فون تھے نہ موبائیل ۔ تعلیم کی کمی کا یہ حال تھا کہ گاٶں میں دو کلاس پاس منشی کہلاتا تھا۔ میں جب چوتھی پانچویں کلاسں میں گیا تو گاٶں والوں کو خطوط نویس ہاتھ آ گیا۔ جن لوگوں کے بچے فوج یا کسی اور ملازمت میں باہر تھے وہ مجھ سے خط لکھواتے جن میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔ مجھے بھی کوئی خاص خط لکھنے کی ترتیب کا پتہ نہیں تھا۔۔ خط کچھ اس طرح لکھوایا جاتا۔۔
سب سے پہلے سب گھر والوں کی طرف سے سلام۔ پھر تمام گھر والوں کے نام لکھ کر سلام۔ پھر خاتون اپنے شوھر کو اپنے بچوں کا نام لکھوا کر کہتی یہ سب آپکو بہت یاد کرتے ہیں۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور آہیں بھرتی۔۔ میں بے حسی سے دیکھتا رہتا۔ پھر لکھواتی اگر دوماہ سے تنخواہ کا منی آرڈر نہیں بھیجا تو خیر ہے ہم گزارہ کر لیں گے تمھاری پردیس میں تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔تیڈی خیر منگدے ہیں۔
آخر میں کہا جاتا لکھو آپ کو چالیس سلام۔ اس طرح کے خط ماٶں اور بیویوں کی طرف سے لکھواۓ جاتے جو آہوں اور سسکیوں پر ختم ہوتے۔ اس کے بعد میں یہ خط لفافے میں بند کر کے مقررہ پتہ لکھ کر ڈاکخانے ڈال آتا۔
میں خود کاتب اس عمر میں پتھر کی طرح بے حس تھا مجھ پرآہوں سسکیوں آنسوٶں کا ذرہ اثر نہ ہوتا ۔بس خاموش پتھر بنا بیٹھا رہتا ۔۔!!!
اب چالیس سال بعد میں ان سسکیوں اور آہوں کی تپش محسوس کرتا ہوں۔ کمال ہے ان آہوں کا اثر اتنے لمبے عرصے میرے دل میں جانگزیں رہا اور اب ستانے لگا۔؎
شاید کوئی تراش کر قسمت سنوار دے ۔۔
یہ سوچ کر میں عمر بھر پتھر بنارہا۔
No photo description available.

About The Author