گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سنیچر کے روز سید ارشاد حسین شاہ کی نئی تصنیف ۔ گردش ایام ۔کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی تو میں نے ایک عرصے بعد ڈیرہ کے نامور ادیبوں کو ایک جگہ اکٹھے دیکھا ۔ ایک تو حصول رزق کے رولے دوسرے کرونا ہمارے دوستوں میں جدائیاں ڈالنے کے لیے آیا ہوا ہے ۔چہروں پر ماسک پہننے کی وجہ سے اب اپنے بھی نہیں پہچانے جاتے اور ان کے رخ روشن دیکھنے کو ہم ترس گیے ہیں۔ کرونا تو ہمیں کیا مارے گا ہمیں جدائیاں ختم کر دینگی۔ خیر شاہ صاحب کی گردش ایام کتاب نے اتنا ہنر تو دکھایا کہ شھر کے ادبا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کا موقع ملا۔
گردش ایام پانچ سو چودہ صفحات کی آپ بیتی ہے جس میں شاہ صاحب کی زندگی کے واقعات کم اور ڈیرہ کی ادبی زندگی کے حالات زیادہ نظر آتے ہیں اور یہی کتاب کا حُسن بھی ہے۔ بلاشبہ یہ اردو ادب کے طلبا کے لیے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ عرصہ دراز سے ایسی کتاب کی کمی محسوس کی جا رہی تھی۔ گردش ایام شاہ صاحب کی پانچویں تصنیف ہے ۔ اس سے پہلے ان کی کتابیں۔۔وہ خواب سارے ۔۔۔۔یہ داغ داغ اجالا ۔۔۔دل پشوری ۔۔۔اردو ہے جس کا نام ۔۔۔ شائیع ہو چکی ہیں ۔یونائیٹڈ بک سنٹر کے لطیف صاحب کو آج میں نے کہا کہ وہ سنٹر میں شاہ صاحب کی کتابوں کے لیے علیحدہ شیلف مختص کریں تاکہ قاریین کو ان کی تصانیف ایک جگہ مل سکیں۔ ان کی کتابوں پر ایم فل کی ریسرچ بھی ہوتی رہی ہے اور اردو ادب کے طلبا و طالبات اکثر ان کے علم سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔
سید ارشاد حسین شاہ صاحب سے میری واقفیت چالیس سال پرانی ہے جب وہ اکاونٹ آفس میں نیے نیے بھرتی ہوے تھے۔ بس ایک فرق نظر آتا ہے اس وقت وہ جوانی کی دہلیز میں ابھی قدم رکھ رہے تھے اور اب صرف آتش جوان ہے۔ گردش ایام میں انہوں نے بچپن کی دور کی شرارتوں کا ذکر کیا ہے جو ہم سے پوشیدہ تھیں ۔ کتاب میں ۔۔ اک حسینہ کے خطوط۔کبھی میں بھی دلیپ کمار تھا اور ازدواجی زندگی کے چالیس برس کے عنوان سے باب لکھ کر شاہ صاحب نے مجھے پہلے حیران پھر پریشان اور آخر پشیمان کر دیا۔ کتاب پڑھ کر پشیمانی تو اور کاموں کی بھی بہت ہے جو شاہ صاحب نے کیے اور ہم سے رہ گیے یا سرذد ہوگے لیکن لکھ نہ سکے مگر شاہ صاحب کی طرح لکھنا نہیں آتا ورنہ ہم قاریین کو بھی پشیمان کر دیتے۔
شاہ صاحب بہت شگفتہ اور دلچسپ طبیعت کے مالک ہیں اور جس دن ان سے ملاقات نہ ہو ہماری طبیعت اداس سی رہتی ہے ۔ وہ ٹھیک گیارہ بجے یونائٹڈ بک سنٹر پہنچ جاتے ہیں جہاں لطیف صاحب اور میں ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اکثر ثنا اللہ شمیم ۔ابوالمعظم ترابی عنایت عادل ۔خوشحال ناظر ۔رحمت اللہ عامر ۔بشیر سیماب۔ وجاہت عمرانی صاحب اگر شھر میں موجود ہوں تو سب لوگ
اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک ادبی نشست کا سماں بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ شاہ صاحب کے ساتھ روزنامہ اعتدال کے دفتر میں بھی محفل جمتی ہے جہاں عرفان مغل صاحب سارا دن ادیبوں اور صحافیوں کی چاے سے تواضع جاری رکھتے ہیں۔ یونائیٹڈ بک سنٹر کی طرح اعتدال کا دفتر بھی ادیبوں اور صحافیوں کا ٹی ہاوس ہے جہاں کئی اجلاس اور محافل منعقد ہوتی ہیں۔
شاہ صاحب نے گردش ایام لکھ کر نہ صرف ادب کی دنیا کے طلبا کی خدمت کی ہے بلکہ ڈیرہ کی تاریخ کے کچھ پوشیدہ گوشے بھی عیاں کر دیے ہیں جو آنے والے مورخین کو حوالے کے طور پر ضرورت پڑیں گے۔ کتاب بڑی محدود تعداد میں شائیع ہوئی ہے اور یونائیٹڈ بک سنٹر پر فروخت کے لیے موجود ہے ۔میں نے آج اپنی کاپی لے کر محفوظ کر لی کیونکہ کالم لکھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر