سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب حکومت نے مالی سال 2021-22کے لئے 2653ارب کے بجٹ کا اعلان کردیا ہے۔ حالیہ بجٹ کے موقع پر جنوبی پنجاب کے عوام توقع کررہے تھے کہ نئے صوبے کے قیام کے لئے سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے 35فیصد مختص کیا ہے جس کو وسیب کے لوگ ناکافی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی اس قسم کی پالیسیوں کو دیکھ کر قطعاً نہیں لگتا کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کے لئے سنجیدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر موجودہ حکومت اپنے 3برس پورے کرنے کے باوجود جنوبی پنجاب کو علیحدہسیکرٹریٹ کا لالی پاپ دے کر خوش کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس خطے کے باشعور عوام کو مزید بیوقوف بنالے لگی تو وہ ہمارے نادان دوستوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح آج دو بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کا اس خطے میں کوئی نام لیوا نہیں ہے بالکل اسی طرح آئندہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے مالی سال 2021-22ء کے بجٹ میں جنوبی پنجاب کیلئے صحت کے لئے 28اور تعلیم کے لئے 21ارب روپے رکھے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت تعلیم اور صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے اور انہی دونوں چیزوں کو کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اہم قرار دیتے ہیں لیکن اگر ان کے دور حکومت میں صحت اور تعلیم کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف رقم مختص کی جارہی ہے تو پھر دوسروں سے بہتری کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔جنوبی پنجاب کے عوام مر پسماندہ رکھنے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے اسی لئے تو سیالکوٹ کی صرف ایک یونیورسٹی کے لئے اربوں جبکہ جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیز کے لئے فقط کروڑوں کا بجٹ رکھا گیا ہے جو جنوبی پنجاب سے سوتیلی ماں کا سا سلوک جاری رکھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہر ضلع میں یونیورسٹی تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے اگر خان صاحب عثمان بزدار سے ضلع وائز یونیورسٹیوں بارے استفسار کرنے کی زحمت کرلیں تو تمام تر حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے۔اگر یہاں مظفر گڑھ یونیورسٹی کی بات کی جائے تو اس کے قیام میں اصل رکاوٹ کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب خود ہیں جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پہلے وہ اپنے دورے میں اس یونیورسٹی کا خود اعلان کریں اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کو آپریشنل کردیا جائے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ مظفر گڑھ یونیورسٹی کا تمام تر پیپر ورک ہر لحاظ سے مکمل ہوچکاہے جس کا تمام تر سہرا ملک خیر محمد بدھ کو جاتا ہے جو اپنے علاقے میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے بہت عرصے سے کوشاں ہیں۔ حتیٰ کہ اس یونیورسٹی کے قیام کے لئے فنڈز کا بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ کوڑے خان ٹرسٹ کے فنڈز بھی مظفر گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں اور اگر حکومت تھوڑی سی تیز دکھائے تو اگلے چند ہفتوں میں مظفر گڑھ یونیورسٹی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔
ضلع مظفر گڑھ سے ہزاروں طلبا ملتان اور دیگر علاقوں میں آکرتعلیم حاصل کرتے ہیں جس سے ان کے والدین کو زائد تعلیمی اخراجات افورڈ کرنا پڑتے ہیں جس کے میرے وسیب کے غریب والدین کسی طور بھی متحمل نہیں ہوسکتے لیکن مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم اچھے دنوں کی امید پر دلواتے ہیں لیکن یہ خواب اس وقت مٹی میں مل جاتے ہیں کہ جب تعلیم مکمل کرنے کے باوجود ان کے لخت جگر نوکریوں کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور پھر پنجاب کے طلبا جنوبی پنجاب کے طلبا کی جگہ ملازمتوں میں بھرتی ہوجاتے ہیں۔ ستم تو یہ ے کہ اب تو عدالت نے بھی ملازمتوں میں جنوبی پنجاب کے امیدواروں کے لئے علیحدہ کوٹہ مختص کرنے کے لئے فیصلے کو مسترد کردیا ہے جسے جنوبی پنجاب کے ساتھ بڑی زیادتی قرار دیا جارہا ہے۔
حکومت پنجاب نے نئے مالی سال کے بجٹ میں ایمرسن کالج یونیورسٹی، خواتین یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف تونسہ اور عثمان بزدار سکول آف سٹیٹ بہاولپور کے منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کئے ہیں۔ بجٹ میں یونیورسٹی آف مظفر گڑھ کے منصوبے کے لئے 80کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں لیکن کہا جارہاہے کہ فنڈز کا اجراء منصوبے کی حتمی منظوری کے بعد ہوسکے گا۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہمارے ملک میں تعلیم کے ساتھ جو کھلواڑ عرصہ دراز سے جاری ہے اس پر سوائے افسوس کے اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے مشترکہ ترقیاتی پروگرام جنوبی پنجاب کے عوام سے دھوکہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ حکومت نے بجٹ میں کسی طور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی سعی کی ہے لیکن ابھی اس حوالے سے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے کیونکہ اگر صوبائی حکومت جنوبی پنجاب اور اس کے عاوم کے مسائل بارے احساس اور درد رکھتی ہے تو ضروری ہے کہ اس خطے میں تعلیم کی بہترین سہولیات فراہم کرے اور زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے کھولے تاکہ اس خطے کے لوگوں کو نسل در نسل غلام رکھنے والوں کی عرصہ دراز کی خواہشات پر پانی پھر جائے۔
اگر یہاں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی بات کی جائے تو 189 ارب کے ترقیاتی فنڈز سے اس خطے کے عرصہ دراز سے گھمبیر مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا لیکن چونکہ کہیں نہ کہیں سے بہتری کا آغاز تو ہونا ہے اس لئے اس خطے کے وسائل یہاں کے لوگوں پر ہی خرچ کرنے کی روایت قائم کی جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی تعلیم بارے سنجیدگی پر عوام خاصے مطمئن ہیں لیکن یہ کڑوا سچ ہے کہ جنوبی پنجاب کی ترقی کی طرف وزیراعظم نے اس طرح سے توجہ نہیں دی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی بلکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو
انتہائی اہم ترین عہدے پر فائز ہیں، ابھی چند روز قبل پنجاب حکومت سے جواب طلب کررہے ہیں جسے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ہی کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے چند ہفتے قبل ملتان کا دورہ کیا۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا افتتاح ان کے ہاتھوں پنجاب حکومت نے کرواتو لیا لیکن مجال ہے کہ معاملات ایک انچ بھی آگے بڑھے ہوں جس کے بعد یہی کہاجاسکتا ہے کہ بزدار حکومت نے وزیراعظم کو ’’ماموں‘‘ بنایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ’’وسیم اکرم پلس‘‘ پر نظر رکھنی چاہیے اور ان سے کارکردگی بالخصوص جنوبی پنجاب کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ضرور جواب طلب کرنا چاہیے۔ وزیراعظم صوبوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے خواہش مند ہیں اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ تعلیم اور صحت دونوں شعبوں کو خود مانیٹر کریں۔ جنوبی پنجاب میں نئے تعلیمی اداروں کے کھلنے سے نہ صرف اس علاقے کے بچوں کو تعلیم کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع بھی دستیاب ہوں گے۔
اگرچہ تاریخ میں پہلی بار جنویب پنجاب کے لئے الگ سے 35فیصد بجٹ مختص کرکے تاریخ رقم کی گئی ہے اور پہلی مرتبہ بجٹ کی کاپی بھی الگ رکھی ہے جس کا مطلب یہ ے کہ جنوبی پنجاب کا بجٹ اسی علاقے پر خرچ ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جنوبی پنجاب کے سپوت ہیں اور ان پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں اس خطے کی ترقی کے لئے ہرممکن کوشش کریں اور اس خطے کے ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کے قیام کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں تاکہ اس خطے کے عوام انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر