رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی منظر تھا اور وہی پریس گیلری۔ اسمبلی اجلاس کا وقت دو بجے کا تھا لیکن اجلاس پونے چار بجے شروع ہوا۔ شروع کیا ہوا بس ایک کارروائی سی تھی اور پھر کچھ دیر میں اجلاس ختم بھی ہوگیا۔
ایک دن پہلے ہاؤس کے اندر جو مار کٹائی اور گالی گلوچ ہوئی تھی اس کے بعد پورے ملک سے جو ردعمل آیا اس کا اندازہ شاید اپوزیشن اور حکومت دونوں کو نہ تھا‘ اس لیے بدھ کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے مختلف فضا بنی ہوئی تھی۔ ایم این ایز ہاؤس میں آتو رہے تھے لیکن لگ رہا تھا کہ وہ کچھ شرمندہ سے ہیں۔ مجھے لگا شاید انہیں احساس ہوا ہے کہ وہ کچھ غلط کر بیٹھے ہیں لہٰذا آج وہ کچھ بہتر کریں گے تاکہ ان کا امیج تھوڑا بہتر ہوسکے۔سب نظریں سپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں کہ اس ہاؤس کے کسٹوڈین تو وہی ہیں۔ اس ہاؤس کی عزت کا پاس رکھنا ان کی ذمہ داری بنتی ہے مگر اب تک وہ اس میں کامیاب نظر نہیں آتے ۔ بہت کم حکومتیں اپنے سپیکرز کو یہ سپیس دیتی ہیں کہ وہ اپنا مقام اور حیثیت اونچی کر کے اپوزیشن کی جانب سے بھی عزت کا مرتبہ حاصل کر سکیں۔ اکثر حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سپیکر ان کی آنکھ کے اشارے کا منتظر رہے اور وہی کرے جو حکمران چاہتے ہیں۔ اس اپروچ کا یہ نتیجہ نکلا کہ سپیکر ہاؤس کو چلانے میں ناکام رہے ۔کمزور سپیکرز میں چوہدری امیر حسین اور ایاز صادق کا نام لیا جائے گا لیکن جتنی کمزوری اسد قیصر کے حصے میں آئی ہے اس سے پہلے سپیکرز اس سے محروم رہے۔ اسد قیصر صاحب کا شمار بھی انہی سپیکرز میں ہو گا۔ چلیں مان لیا کہ ایک دن ہلہ گلہ ہوگیا‘ دو دن ہوگیا لیکن بھلا تین دن مسلسل ہنگامہ ہوتا رہے اور آپ بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہیں؟ آپ کی نظروں کے سامنے ڈسپلن کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں‘ ایک دوسرے کی مارپیٹ کی جاتی رہے‘ گالیوں کا تبادلہ ہوتا رہے اور آپ پھر بھی کوئی ایکشن نہ لے سکیں تو اس کا مطلب ہے آپ اس عہدے کے قابل نہ تھے۔اسد قیصر ضرورت سے زیادہ کمزوری یا شرافت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اور اس کمزوری کا فائدہ اپوزیشن اور حکومت دونوں نے اٹھایا ہے۔
عہدوں پر بیٹھنے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو آپ کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ جب گیم آف تھرونز ناول پڑھا تو اس کے ابتدائی صفحات میں یہ سبق پڑھا کہ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ خون سے رنگنے پڑتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچوں کے سامنے کسی بھگوڑے کی گردن اڑانا پڑتی ہے۔لیکن اسد قیصرخود پر دبائو یا اپنی روایتی کمزوری کی وجہ سے ایکشن لینے میں ناکام رہے۔ آپ نے جن سات ایم این ایز کو معطل کیا ان میں کوئی وزیر شامل نہیں۔میں نے کسی سمجھدار سے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ وزیر بھی تو اس ہنگامے میں برابر کے شریک تھے بلکہ شاید پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ وزیر بھی نعرے بازی‘ ہلڑ بازی اور دھینگا مشتی میں پیش پیش رہے ورنہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہنگاموں اور گالی گلوچ کیلئے پچھلی نشستوں پر بیٹھے ایم این ایز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بیک بینچر ایم این ایز بھی کلاس کے ان طالب علموں کی طرح ہوتے ہیں جن پر استاد کی نظر کم پڑتی ہے اور جب ان کو موقع ملتا ہے تو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے مختلف ” بچگانہ‘‘ حرکتیں کرتے ہیں۔ ویسے تو ان بے چاروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا‘ ان کو پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہونے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا چاہے وہ کتنی بار اپنی میز کے سامنے رکھے مائیک کے ساتھ لگے سرخ بٹن کو دباتے رہیں۔ اکثر ایم این ایز کے نام تک کوئی نہیں جانتا۔ یہ کلاس صرف ٹرانسفر پوسٹنگ‘ تھانہ کچہری کے کاموں اور ترقیاتی فنڈز کیلئے سیاست میں آتی ہے۔ اگر کبھی انہیں ہاؤس میں کسی اہم سنجیدہ موضوع پر تقریر کرنی پڑ جائے تو کئی دن تک تیاری ہوگی اور یہ لکھی ہوئی چند سطریں پڑھ کر سنا دیں گے‘لیکن اگر ہاؤس میں شور شرابا یا ہنگامہ کرانا ہو تو یہ بیک بینچرز بڑے کام آتے ہیں۔ بیک بینچرز کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ بعض دفعہ ایسی آوازیں نکالتے ہیں یا جملے کستے ہیں کہ ان کا پتہ نہیں چلتا کون تھا۔ اور تو اور ان کی حرکتیں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے وزیروں کو بھی مجبور کردیتی ہیں کہ وہ مڑ کر دیکھیں۔ یوں وزیروں کا مڑ کر دیکھنا ان لوگوں کے پیسے پورے کردیتا ہے اور وہ زیادہ زورو شور سے وہ حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران سب سے زیادہ جملے بھی بیک بینچرز کے ہوتے ہیں جو بعد میں بڑی لڑائی کا سبب بنتے ہیں۔ اپوزیشن کے بیک بینچرز بھی ہوٹنگ کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یوں ایک بچے کی طرح وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو والدین کی عدم توجہی کی وجہ سے احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور توجہ کے حصول میں لگا رہتا ہے۔
لیکن اس دفعہ کام الٹا ہوا کہ فیصلہ اوپر سے آیا تھا کہ اب محمود و ایاز میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اب یہ نہیں ہوگا کہ فرنٹ سیٹوں پر بیٹھے وزیر معزز بن کر بیٹھے رہیں گے اور بیک بینچرز شہباز شریف کوتقریر نہیں کرنے دیں گے۔ اس دفعہ سب سے بڑا ٹاسک وزیروں کو ہی دیا گیا کہ انہیں سب سے آگے نظر آنا چاہئے ورنہ ان کی خیر نہیں۔ اور داد دیں وزیروں کو کہ ان میں سے کسی میں جرأت نہ تھی کہ وہ وزیراعظم کو کہہ سکے کہ یہ جارحانہ پالیسی ہمیں اپوزیشن کے ٹریپ میں پھنسا رہی ہے۔ اپوزیشن یہی چاہتی ہے کہ ہاؤس نہ چلے اور جیسے تین سال ہنگاموں میں گزرے ہیں اس طرح بقیہ دو سال بھی گزاردیں۔ عمران خان بھی اپوزیشن کے دنوں میں پانچ سال تک پارلیمنٹ کے باہر اپنے جلوس لے کر بیٹھے رہے تاکہ پارلیمنٹ چل نہ سکے۔ اب وہی کام اپوزیشن کررہی ہے اور اب تک بڑی کامیاب ہے۔ وزیراعظم کو پہلے دن اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد تقریر نہ کرنے دینے سے لے کر آج تک اپوزیشن کی حکمت عملی یہی رہی ہے جس سے خان صاحب کا غصہ بڑھا ہے۔ اور یہی اپوزیشن چاہتی ہے۔ اب اگر دیکھا جائے تو وزیرخزانہ شوکت ترین کی تقریر میں خلل ڈال کر اپوزیشن نے پٹرول کو آگ دکھائی تھی‘ نتیجہ وہی نکلا جو اپوزیشن چاہتی تھی کہ لوگ بجٹ کو بھول جائیں کیونکہ حکومت دعوے کررہی تھی کہ معاشی ترقی بہتر ہوئی ہے اور لوگ بھی تعریف کررہے تھے کہ پچھلے تین سالوں کی نسبت بہتر بجٹ ہے۔ اب حکومت چاہتی تو وہ شوکت ترین والے ہنگامے کو اگنور کر کے شہباز شریف کو بولنے دیتی تاکہ اس کے اپنے ارکان بھی کھل کر بجٹ کے اچھے پہلو عوام کو سمجھا سکتے۔ لیکن ہوا اس کے الٹ۔ شہباز شریف کی جو تقریر زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے چلتی وہ تیسرے دن تک مکمل نہیں ہوئی۔ اپوزیشن چاہتی بھی یہی تھی کہ حکومت اس بجٹ کے کچھ اچھے پہلو اجاگر نہ کرسکے۔ دو تین حکومتی اراکین سے بات ہوئی تو وہ بھی یہی کہتے پائے گئے کہ اس دفعہ وہ خوش تھے کہ بجٹ پر بات کریں گے۔میں نے کہا: شہباز شریف کو تقریر کرنے دیتے کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ بولے: وزیراعظم کو لگتا ہے کہ اگر پنجاب میں شریفوں کو ہرانا ہے تو پھر مولا جٹ والا انداز اختیار کرنا ہوگا۔ پنجاب کے لوگوں کو یہ نہ لگے کہ وہ کمزور اور شریف ڈاہڈے ہیں۔ رہی سہی کسر ضمنی انتخابات میں مسلسل شکستوں نے پوری کردی ہے کہ پنجاب سے ووٹ نہیں پڑ رہا۔ اس لیے جارحانہ انداز کا فیصلہ کیا گیا ۔ میں نے کہا: لیکن اس پورے کھیل میں نقصان تو آپ لوگوں کو ہورہا ہے‘ بجٹ پیچھے رہ گیا ہے۔وہ صاحب بولے: آپ بھول رہے ہیں کہ ہم نے پٹرول کی قیمت ڈھائی روپے فی لٹر تک اسی ہنگامے کے دوران چپکے سے بڑھا دی۔کہیں سے چوں کی آواز نکلی کہ پٹرول مہنگا ہوگیا؟عوام بھی پٹرول کی مہنگائی کو بھول گئے۔اس لیے دیکھا جائے تو شور شرابا اور ہنگامہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سوٹ کرتا ہے۔اپوزیشن خوش ہے کہ وہ ہاؤس کو نہیں چلنے دے رہی جبکہ حکومت خوش ہے کہ اس نے ان ہنگاموں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے پٹرول کی قیمت کے نام پرعوام کی جیب کاٹ لی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر