نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بجٹ: امریکہ اور آئی ایم ایف || نصرت جاوید

مذکورہ سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لئے شوکت فیاض ترین کی جمعہ کے روز ہوئی تقریر کی بابت قومی اسمبلی میں ہوئی ’’عام بحث‘‘ کواب غور سے سننا ہوگا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بیوی اخباری زبان والی محض ’’گھریلو خاتون‘‘ نہیں ہے۔ ہماری سفید پوشی برقرار رکھنے کے لئے میرے ساتھ شادی کے پہلے روز سے ملازمت بھی کررہی ہے۔ کئی بار ہمارے کنبے کے تمام تر اخراجات کا کامل انحصار اس کی آمدنی پر ہی رہا۔اپنے کھلے ہاتھ کی بدولت اکثر مجھ سے فضول خرچی کے طعنے سنتی ہے۔ حقیقی معنوں میں اگرچہ ایک قانع اور امید پرست خاتون ہیں۔

گزشتہ ایک برس سے تاہم اس کا رویہ حیران کن حد تک بدلنا شروع ہوگیا ہے۔ہفتے میں کم از کم ایک بار گھریلو اخراجات کی فہرست سامنے رکھے مہنگائی کے خلاف تقریر جھاڑنا شروع کردیتی ہے۔کم آمدنی والے طبقات کے مسائل پر نگاہ رکھنا اس کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں شامل ہے۔معیشت کو علمی اعتبار سے لہٰذا مجھ سے کہیں بہتر سمجھتی ہے۔

صبح میرے بیدار ہونے سے قبل اس نے ہمارے ہاں آئے دو انگریزی اخبارات پڑھ لئے ہوتے ہیں۔ہفتے کی صبح میرے اٹھنے کے بعد اس نے جھنجھلاہٹ بھری بے بسی سے اعتراف کیا کہ جمعہ کی سہ پہر شوکت فیاض ترین کی جانب سے قومی اسمبلی کے روبرورکھی بجٹ تجاویز کی بابت اخباروں میں ہوئی رپورٹنگ اسے بالکل سمجھ نہیں آئی۔

وزیر خزانہ گزرے جمعہ کی سہ پہر جب مذکورہ تجاویز پڑھ رہے تھے تو میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں موجود تھا۔ وہاں بیٹھے ان کی تقریر کا ایک لفظ بھی سنائی نہیں دیا۔ اپوزیشن اراکین اپنی نشستوں کے سامنے رکھی بھاری بھر کم دستاویزات کے پلندے کو ڈیسک پر مارتے ہوئے عمران حکومت کے خلاف نعرہ بازی میں مصروف رہے۔ وزیر اعظم صاحب اپنے کانوں پر ہیڈ فون لگائے ہال میں جاری شوروغوغا سے بے نیاز نظر آئے۔ حکومتی اراکین کی اکثریت مگرہیڈ فون کی بدولت ترین صاحب کی تقریر کو غور سے سننے اور وقتاََ فوقتاََ اس کے اہم نکات کو ڈیسک بجاتے ہوئے سراہنے سے گریز کرتے رہے۔اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں سے گپ شپ ہی میں مصروف رہے۔ حکومتی بنچوں کی جانب سے بجٹ تقریر کے بارے میں ایسی بے نیازی میں نے شاذہی دیکھی ہے۔

حکمران جماعت کی ایک خاتون رکن نے البتہ مسلم لیگ (نون)کی پچھلی نشستوں پر مریم اورنگزیب کے ساتھ احتجاجی پلے کارڈ لہراتی خواتین کو نہایت جارحانہ انداز میں خاموش کروانا چاہا۔ ان کے لہرائے پلے کارڈ چھین کر پھاڑدئیے۔ حکمران جماعت کے کسی رکن نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی۔ سپیکر صاحب بھی ان کی جارحیت کو نظرانداز کرتے رہے۔

مذکورہ خاتون رکن کے علاوہ وفاقی وزیر امین اللہ گنڈاپور کے ساتھ بیٹھے لیہ کے منتخب ہوئے حکمران جماعت کے ایک اور رکن نے بھی پیپلز پارٹی کے چیئرین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف بلند آواز میں ایسے فقرے کسے جو ہر اعتبار سے رکیک اور پارلیمانی آداب کے یکسر خلاف تھے۔ انہیں روکنے کے بجائے وزارتی نشستوں پر بیٹھے کئی افراد ان فقروں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

پارلیمانی رپورٹروں کی اکثریت کا اس کے باوجود اصرارتھا کہ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کا احتجاج اسد عمر اور حماد اظہر کی جانب سے ہوئی بجٹ تقاریر کے مقابلے میں ’’نرم اور ٹھنڈا‘‘ تھا۔ اپنی نشستیں چھوڑ کر اپوزیشن اراکین نے نعرہ بازی کرتے ہوئے حکومتی بنچوں کا اشتعال انگیز انداز میں رخ نہیں کیا۔تحریک انصاف کے جیالوں کو اپنے کپتان کے گرد ’’حفاظتی حصار‘‘ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

مسلم لیگ نون کے بیشتر اراکین عمران حکومت کو ’’مودی کا یار‘‘ٹھہراتے رہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو حال ہی میں حکمران جماعت نے عالمی عدالت انصاف کی تسلی کے لئے ’’سہولت‘‘ فراہم کرنے والی قانون سازی کی ہے۔’’مودی کا یار‘‘ والا نعرہ اس تناظر میں بلند ہوا۔ مسلم لیگ کے چند اراکین اگرچہ کچھ ’’نیا‘‘ بھی کرنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے عمران خان صاحب کے مبینہ ’’سلیکٹرز‘‘ میں سے ایک کا نام لینے والا نعرہ متعارف کروانے کی کوشش کی۔ شہباز شریف اسے سنتے ہی پریشان ہوگئے۔تلملاتے ہوئے حکم دیا کہ ایسے نعروں سے گریز کیا جائے۔ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ یہ واحد موقع تھا جب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کچھ متحرک نظر آئے وگرنہ شوکت ترین کی طویل تقریر کے دوران اپنی نشست پر چپ چاپ ہی بیٹھے رہے۔ ان کا چہرہ اداس اور اندیشہ ہائے دور دراز کے انبار سے گھبرایا ہوا نظرآیا۔

معاشی معاملات کے بارے میں اعدادوشمار کے ہجوم کے ساتھ گفتگو ہورہی ہو تو مجھ جیسے جاہل کو ککھ سمجھ نہیں آتی۔ ملکی سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے کافی اعتماد سے لیکن یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ شوکت فیاض ترین کی طولانی تقریر بنیادی طورپر یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہمارے بازاروں پر چھائی اداسی کے دن تمام ہوئے۔اگست 2018میں عمران حکومت برسراقتدار آئی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ وزیر اعظم نے نہایت عزم اور جرأت سے سامنے آئے چیلنجز کا مقابلہ کیا۔معیشت پہلے سنبھلی۔ پھر اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی۔اب اسے تیزرفتاری سے خوش حالی کی جانب بڑھناہے۔
2021-22کے مالیاتی سال کے لئے جو بجٹ تجاویز ترین صاحب نے تیار کی ہیں ان کا کلیدی ہدف ترقی کے سفر کو تیز تربنانا ہے ۔میں ہرگز سمجھ نہیں پایا کہ وہ کونسے اقدامات ہیں جو مطلوبہ ہدف کا حصول ممکن بنائیں گے۔شوکت ترین صاحب کی تقریر اگرچہ یہ عندیہ دیتی رہی کہ ہمارے متوسط طبقات کی اکثریت جلد ہی اپنے لئے موبائل فونز کے جدید تر ماڈل خریدنا شروع ہوجائے گی۔ موٹرسائیکلوں کے بجائے ایسی کاریں خریدنے کا رحجان بڑھے گاجو پیٹرول سے نہیں برقی بیٹریوں سے چلائی جاتی ہیں۔ترین صاحب کے منہ میں گھی شکر۔

میرے وسوسوں بھرے دل میں ان کی تقریر سننے کے بعد سے مگر مسلسل یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ یعنی آئی ایم ایف ممکنہ رونق کو ممکن بنانے کے لئے تیار ہے یا نہیں۔ اسد عمر صاحب کی ذہانت وفطانت عمران حکومت کے ابتدائی برس کے دوران بازار میں رونق لگانے میں ناکام رہی تو بالاخر اس ادارے سے رجوع کرنا پڑا تھا۔ اس نے ہماری معیشت کی ’’بحالی‘‘ کے لئے ایک نسخہ تیار کیا۔اس پر عملدآمد کو یقینی بنانے کے لئے حفیظ شیخ صاحب وزارت خزانہ کے حتمی مدارالمہام ہوئے۔ سٹیٹ بینک کی نگہبانی بھی آئی ایم ایف کے پسندیدہ ’’ماہر‘‘ رضا باقر کے سپرد ہوئی۔ آئی ایم ایف نے اپنے نسخے پر عملدرآمدیقینی بنانے کے لئے ہمیں مختلف اقساط میں 6ارب ڈالر مہیا کرنے کا بھی وعدہ کیا۔اوسطاََ پانچ سوملین ڈالر کی قسط لینے کے لئے ہر چھ ماہ بعد ہمیں آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔

میرا نہیں بلکہ حال ہی میں نامزد ہوئے وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین کا اصرار ہے کہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ نسخہ ہماری معیشت کو شفایاب کرنے کے بجائے مزید پژمردہ بنارہا ہے۔طبیب سے لہٰذا کسی نئے نسخے کی درخواست ہوگی۔ سوال اٹھتا ہے کہ ’’طبیب‘‘ ہماری درخواست پرہمدردانہ غور کو تیار ہوگا یانہیں۔’’اندر‘‘ کی باتوں کا ان دنوں مجھے ہرگز اندازہ نہیں۔اپنے صحافتی تجربے کی بنا پر البتہ مصر رہوں گا کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے فقط اس وقت ہم جیسے ملکوں کے ساتھ ہمدردی دکھانے کو آمادہ ہوتے ہیں اگر امریکہ اور اس کے اتحادی دفاعی اور قومی سلامتی کے حوالے سے چند مشکلات میں گرفتار ہوجائیں۔

1960کی دہائی میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے ’’ترقی‘‘ کے جو ’’دس سال‘‘ دکھائے تھے ان کی بنیادی وجہ سرد جنگ کے دوران پاکستان کا کمیونسٹ ممالک کے خلاف بنائے اتحاد میں شمولیت تھی۔ ’’افغان جہاد‘‘ کی برکتوں نے جنرل ضیاء کے گیارہ برسوں کو ’’استحکام‘‘ بخشا۔ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ نے جنرل مشرف کے عہد میں رونق لگائے رکھی۔

افغانستان ایک بار پھر ان دنوں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دردِ سربن چکا ہے۔ اولین ترجیح ان ممالک کی اگرچہ اس ملک سے اپنی افواج اور جدید ترین اسلحہ کو ’’بحفاظت‘‘ باہر نکالنا ہے۔اس تناظر میںپاکستان سے کچھ تقاضے ہورہے ہیں ۔ نظر بظاہر ہماری عسکری اور سیاسی قیادت ان میں سے چند تقاضوں مثال کے طورپر پاکستان میں فوجی اڈے کی فراہمی کے لئے قطعاََتیار نہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تمام تر تقاضوں کو لیکن یکسررد کردیا گیا تو آئی ایم ایف سے 500ملین ڈالر کی نئی قسط بھی نہیںملے گی۔ یہ قسط نہ آئی تو متوسط طبقے کے بیشتر افراد نئے موبائل فون کیسے خریدیں گے؟ جب آپ کے زیر استعمال موٹرسائیکل یا کار چلانے کے لئے پیٹرول خریدنے کی سکت بھی معدوم نظر آئے گی تب یہ طبقات برقی بیٹری سے چلنے والی کار خریدنے کے بارے میں کیوں سوچیں گے؟

مذکورہ بالا سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لئے شوکت فیاض ترین کی جمعہ کے روز ہوئی تقریر کی بابت قومی اسمبلی میں ہوئی ’’عام بحث‘‘ کواب غور سے سننا ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author