حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا تمہارے لیے کسی مایا کا فون آیا ہے۔
آٹھویں نویں میں تھا، سردیوں کے دن تھے، فون کے دو کنکشن ہوا کرتے تھے۔ ایک بیٹھک اور دوسرا اس کمرے میں جو پہلے دادی کا ہوا کرتا تھا۔ ان کے بعد بچوں کے حصے میں آ گیا۔
تو میں وہیں تخت پہ کمبل کے اندر لپٹا بڑے سکون سے ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میری جانے بلا کس کا فون ہے۔ اس زمانے میں ٹیلیفون سننے کا مطلب یہ ہوا کرتا تھا کہ جس سے فون کرنے والے نے بات کرنی ہے، جا کے اسے بلا کر بھی لاؤ، اپن جہان کے سست، کان لپیٹے وہیں کے وہیں، بجتی رہیں گھنٹیاں۔
ادھر بیٹھک میں ابا کمپیوٹر پہ بیٹھے ہوتے تھے۔ یہ انٹرنیٹ کا بالکل شروع والا ٹائم تھا جب فون اٹھانے سے کنکشن سوا ہو جاتا تھا۔ ویسے بھی دوست یاروں کو منع کیا ہوتا تھا کہ بھئی شام کو انٹرنیٹ چلتا ہے تو اس ٹائم فون ہرگز مت کرنا، یہ تو پھر خصوصی کیس تھا۔ دن کا شاید کوئی ٹائم طے کیا تھا ہم لوگوں نے یا پتہ نہیں کچھ اور۔ لانگ ڈسٹنس دوستی تھی اور بالکل زیرو میٹر تھا بھائی، اس زمانے میں کافی عرصے تک لوگ ایسے ہی رہا کرتے تھے۔
یہ سلسلہ ہوا بھی حادثاتی تھا، کوئی رانگ نمبر ملا یا کہیں جان بوجھ کے ملایا گیا کچھ ذہن میں نہیں، اتنا یاد ہے کہ خود میں تپڑ بالکل نہیں تھے۔ شروعات ادھر ہی سے ہوئی تھی، دوسری طرف سے۔ نہ شکل کا پتہ، نہ عمر کا، نہ شہر نہ ڈاک خانہ۔ آواز پہ کل کائنات سجا لینے کا زمانہ، تو بس یہ تھا سارا سین۔
ابو بے چارے نے دوسری بار گھنٹیاں بجنے پہ فون اٹھایا، موڈیم ڈس کنکٹ ہوا، اگلی شیرنی تھیں خاتون، بے دھڑک بلوا لیا حسنین جمال کو۔ ابو آئے بیٹھک سے، تھوڑے چڑے لہجے میں کہا کہ بیٹا تمہارے لیے کسی مایا کا فون آیا ہے اور کہہ کر واپس چلے گئے۔ ابھی خاک بات کرنی تھی، فل دھڑک پروگرام تھا یہاں، سردی میں پسینے، جب پتہ ہو کہ دوسرا فون ادھر بیٹھک میں ہے اور کسی بھی وقت اٹھایا جا سکتا ہے، تو ظاہری بات ہے یہی ہونا تھا۔ جیسے تیسے کر کے فون بند کیا، کافی دیر تک انتظار کرتا رہا، ابو آئے نہ انہوں نے کچھ کہا۔ معاملہ ٹل گیا۔ تو اس وقت ابوؤں کا ڈر ایسا ہوتا تھا اور برابر ٹھیک ہوتا تھا کیونکہ لتر پولا کسی ٹائم بھی شروع ہو کے ان گنت ترنم سمیت صدیوں بعد مکتا تھا۔ ابو مارتے نہیں تھے پر دہشت پوری تھی۔ کیوں تھی بتاتا ہوں۔
آج کل دیکھ لیں، موبائل بجے گا، بچے نے فون اٹھایا اور سکون سے کونے پہ ہو گیا، وہاں سے سرکتا ہوا دروازے کے پاس، پھر بلی کی طرح کدھر غائب، کچھ پتہ نہیں۔ اس میں برائی ہرگز نہیں لیکن پیراڈائم شفٹ یہی کہلاتا ہے۔ وقت بدل گیا، حالات بدل گئے، جذبات بدل گئے لیکن ہمارا سب کا دماغ وہیں اڑا ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا اور ایک آج کل کے ابو لوگ ہیں، کوئی رعب داب والا چکر ہی نہیں۔
اس زمانے کی مائیں باپوں کو بھؤ بنا کے رکھتی تھیں۔ کچھ بھی کرے بچہ ”ٹھیر جاؤ، ابھی تمہارے ابو آئیں گے انہیں بتاؤں گی۔“ پھر جب فون گھروں میں آیا تو وہ جملہ ”کروں ابو کو فون؟“ میں بدل گیا۔ وہ جو ٹھہر جاؤ والی آپشن تھی وہ بھی نکل گئی۔ اب چاہے باپ نے کبھی ہاتھ نہ اٹھایا ہو لیکن ایک پورا ماحول ہوتا تھا۔ پانچ بجے کے بعد کان دروازے پہ ہوتے تھے۔ باپ دروازے کے اندر، ٹی وی کی آواز کم، باپ نے موزے اتارے، پہلا بچہ دوسرے کمرے میں، باپ آ کے لیٹا، سلام کر کے دوسرا بچہ بھی کہیں کونے کھدرے میں۔ اب شام کی چائے بنے گی، ابو نہا دھو کے آئیں گے، فریش موڈ ہوا تو بچے آس پاس منڈلائیں گے، ماتھے پہ بل یا لہجہ سوچتا ہوا لگا تو سوائے ماں کے سب فرنٹ ہو جائیں گے۔ فل ٹیکا ہوا کرتا تھا باپ نامی ہستی کا۔
آج کل بابا دفتر سے آئیں، واپس جائیں، سوئے وے ہوں، اٹھ کے بیٹھیں، بچوں کو ذرا جو فرق پڑے۔ ابا کے سینے پہ چڑھ کے ناچیں گے یا پوری آواز میں پب جی کھیلیں گے یا کچھ بھی ایسا کریں گے جس سے ہمارے زمانے والوں کو اپنے ابو کی دہشت یاد آ جائے۔
اس وقت ایک پاکٹ منی فکس ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے چونی پھر اٹھنی پھر ایک روپیہ، دو، تین اور پانچ روپے تک گئی تھی۔ پورا دن اسی میں نکالنا ہوتا تھا اور کوک کی بوتل اس وقت بھی چھ روپے کی تھی۔
ابھی کیا کوک، کیا چپس، کیا برگر اور کیا وہ فوڈ پانڈا۔ جب دیکھیں دندناتے ہوئے گھر کے دروازے پہ آئیں گے، آپ چاہیں یا نہ چاہیں، اب دیر ہو چکی ہے، گھر آئے رائیڈر کو واپس کریں گے تو کیا معلوم اگلی بار ریٹنگ خراب ہو جائے ”صارف“ کی۔ تو بابا لوگ بچے کو کہیں گے، نہ میرا بچہ، جنک فوڈ اتنا زیادہ نہیں کھاتے، بچہ سکون سے کھاتے ہوئے آپ کی طرف دیکھے گا اور اسی کان سے نکال کر لگ جائے گا واپس اپنے کام میں۔ بابا لوگ بھی دوبارہ کھجانے میں لگ جائیں گے۔
تب وہ گھر بہت ماڈرن ہوا کرتا تھا جہاں ڈش ہوتی تھی، سٹار پلس چلتا تھا، تارا، ساس بھی کبھی بہو تھی، انتاکشری، یہ سب چلتے تھے لیکن ابا کے آنے پہ سب ان چیونٹیوں کی طرح بکھر جاتے تھے جن کے بیچ میں سے چینی کا دانہ کسی ہاتھ نے اٹھا لیا ہو۔ اب موبائل ہاتھ میں، وائرلیس سپیکر کان میں، ابا آئے بچہ زپنٹو۔ ابے ہے کدھر، ڈھونڈیں گے تو آواز نہیں دیجیے گا، کانوں پہ ٹونٹیاں چڑھی ہیں، اسی موبائل فون پہ فون کریں میر صاحب سادہ کہ اور کوئی علاج ہے ہی نہیں۔ تو بچے اب کالوں پہ برآمد ہوتے ہیں۔
قصور بچے کا نہیں ہے۔ پورا باپ ازم چینج ہو گیا ہے۔ سفید لٹھے اور دھوتی سے نکل کر باپ جینز اور ٹی شرٹ میں آ گئے ہیں۔ کالے تسمے والے جوتوں کو جوگرز بدل چکے ہیں۔ سائیڈ کی مانگ کسی بھی وضعدار باپ کا عالمی نشان ہوا کرتی تھی، ابھی سو طرح کے بال رکھتے ہیں باپ لوگ۔ پہلے باپوں کی ڈیکوریشن میں ایک عطر، کنگھا اور تیل کی دو بوندیں شامل ہوتی تھیں، آج کل چھتیس رنگ کے پرفیوم، باڈی سپرے، برش، کریم، پتہ نہیں کیا کیا اباؤں کے لوازمات میں شامل ہو چکا ہے۔ پہلے باپ کتابیں پڑھتے تھے، اخبار پڑھتے تھے، رسالے گھر میں آتے تھے، اب صرف نیٹ فلکس یا سیاسی ٹاک شو چلتا ہے گھر میں۔
تب باپوں کے دوست فیملی فرینڈ ہوا کرتے تھے، چھ اولادیں میاں بیوی سب کے سب تیار ہوتے اور ابا جی کے دوست کی فیملی میں اپنے اپنے سائز کے بچے ڈھونڈ کے دوستیاں ہو جاتیں، ابھی ڈیڈی کی اپنی کمپنی ہے، ممی کی اپنی فرینڈز ہیں، بچے کے اپنے دوست ہیں۔
اس وقت باپ میٹرک پاس بھی ہوتا تو اس کے علم کو چیلنج کوئی نہیں کر سکتا تھا، آج کل پی ایچ ڈی پاپا بھی کوڑیوں کے مول تولے جاتے ہیں، گوگل نے یہ اوقات بھی چھین لی۔ تب کے اباؤں کا فیورٹ کھیل کرکٹ ہوتا تھا یا سٹیفی گراف کو ٹینس کھیلتے دیکھ لیا، اب کے پپا فٹبال سے نیچے بات نہیں کرتے۔
تب کا دور جعلی تھا۔ باپوں کو اولاد سے فاصلہ بنائے رکھنے میں کافی محنت کرنا پڑتی ہو گی۔ دو پرسنیلٹیاں ہوا کرتی ہوں گی، ایک گھر میں دوسری دفتر میں بلکہ تیسری دوستوں میں، مشکل ہوتی ہو گی بے چاروں کو۔
ابھی والے باپ ایک دم پرفیکٹ حالات میں ہیں۔ جو گھر میں ہیں وہی باہر وہی دفتر میں۔ وہ بدل سکتے ہی نہیں، ان کے لیے اب وہ سارے موقعے موجود نہیں ہیں۔ یہ سب کمال ان فاصلوں کا تھا جو اب سمٹ چکے ہیں۔ پہلے باپ ایک لمیٹڈ قسم کا پروگرام ہوتا تھا جو صرف چھ سے نو چلتا تھا، آج کل یہ واٹس ایپ اور یہ سامنے پئیو! جس وقت چاہے جو چاہے رابطہ کر لے۔ ماں مقدمہ رکھے گی تو اولاد اپنی دلیلیں ریکارڈ کر کے بھیج دے گی، بجائے رعب داب کے فادر صاحب جج بنے ہوں گے۔ تو یہ تقریباً ہر گھر کا معاملہ ہے۔ تیس بتیس سے نیچے کی عمر والے باپ اب مارکیٹ میں ایسے ہی آ رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی غیر محسوس طریقے سے آپ کے رویوں کو بدلتی ہے، اسے ایسا کرنے دیں۔ اس سے لڑیں گے تو زیادہ سے زیادہ ایک نسل تک مزید وہ سارے اصول کھینچ کر لے جا سکیں گے جو آپ کے باپ دادا چلایا کرتے تھے۔ لیکن اس میں بہت بڑا ایک نقصان ہو گا، جو بدنصیب اولاد ہو گی وہ اپنے باپ جیسا ابو بننے کے چکر میں آپ کے ہاتھوں خوار ہو جائے گی، گھر کا ماحول جس تناؤ میں جائے گا اس کا نتیجہ الٹی غلیل میں کھینچے گئے پتھر کی طرح کسی نہ کسی دن اپنے سر میں وجے گا۔ دیکھ لیں، بلیک اینڈ وائٹ ابو بننے کی ٹرائے بھی کر لیں، اب یہ کام چلنے والا نہیں ہے استاد!
یاد آیا، اپنے ابو ویسے ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سیٹ ہوتے گئے ہیں، خدا ہمیشہ اچھا رکھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر