اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گھوٹکی ٹرین حادثہ||ظہور دھریجہ

تفتیشی افسران کو اس پہلو پر بھی غور کرنا ہو گا۔ گھوٹکی اور اس طرح کے اور بھی سینکڑوں حادثات ہیں جن کا ذکر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر کی صبح گھوٹکی کے قریب ریتی اور ڈھرکی ریلوے سٹیشنز کے درمیان کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس جب کہ راولپنڈی سے کراچی آنیوالی سرسید ایکسپریس کے درمیان تصادم سے کئی بوگیاں اتر گئیں۔ حادثے کے نتیجے میں سرکاری اطلاعات کے مطابق اب تک 62 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ سو سے زائد زخمی ہیں۔
اس حادثے نے پوری قوم کو مغموم کر دیا ہے۔ اس سٹیشن پر یہ پہلا حادثہ نہیں ہے 13 جولائی 2005 ء کو اسی سٹیشن گھوٹکی کے قریب تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئی تھیں جس میں سرکاری رپورٹ کے مطابق 120 اور غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق کئی سو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اسی طرح گھوٹکی ہی میں 8 جون 1991ء دو ریلوے گاڑیوں کے تصادم میں 100 افراد جاں بحق ہوئے، نومبر 1992ء کو گھوٹکی ریلوے سٹیشن کے قریب ٹرین حادثے میں54 افراد جاں بحق ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ہی جگہ پر بار بار حادثات کیوں ہو رہے ہیں؟
تفتیشی افسران کو اس پہلو پر بھی غور کرنا ہو گا۔ گھوٹکی اور اس طرح کے اور بھی سینکڑوں حادثات ہیں جن کا ذکر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ٹرین کے حادثات سے بھری ہوئی ہے۔ ان حادثات سے جانی نقصان کے علاوہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے مگر اصلاح احوال کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ غفلت اور لاپروائی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ریلوے کا نظام بہت پرانا ہو چکا ہے۔
جب ہم برصغیر میں ریلوے کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1861ء میں کراچی اور کوٹری کے درمیان 105 میل پٹری بچھائی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد 1962ء کے آئین میں ریلوے کو صوبائی حکومتوں کی تحویل میں دیا گیا جبکہ 1973ء کے آئین کے تحت یہ دوبارہ وفاقی شعبہ بن گیا۔ 1974ء میں اس کا نام پاکستان ریلویز رکھ دیا گیا اور اس کی الگ وزارت قائم ہوئی۔ اس کے باوجود ریلوے کے حالات نہیں سدھرے اور بہتری کی پوزیشن سامنے نہیں آسکی۔
 گھوٹکی ریلوے سٹیشن کے حادثے نے ایک مرتبہ پھر پرانے زخم تازہ کر دیئے ہیں اور حادثات کی فلم ذہن کے سامنے گھومنے لگی۔ کچھ حادثات کا ذکر کروں گا کہ 1953ء میں جھمپیر کے قریب حادثے میں 200 اور اس سے اگلے سال جنگ شاہی کے قریب حادثے میں 60 افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا حادثہ پنوں عاقل کے قریب سانگی ریلوے سٹیشن پر ملتان سے چلنے والی ٹرین بہائوالدین زکریا کو پیش آیا اور جس میں 307 افراد جان سے گئے تھے، جن میں سے اکثریت کا تعلق وسیب سے تھا۔ اکتوبر 1969ء کو لیاقت پور ریلوے سٹیشن پر 80 افراد جبکہ 1987ء میں مورو کے قریب بس اور ٹرین کے تصادم میں 28 افراد جاں بحق ہوئے۔
جولائی 2013ء کو خان پور کے قریب ایک ٹرین رکشہ سے ٹکرا گئی جس سے 14 افراد جاں بحق ہوئے۔ ریلوے حکام کو ان حادثات پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے اور ترقی یافتہ ممالک میں تو حادثے کی صورت میں متعلقہ وزیر استعفیٰ دے دیتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے۔ سی پیک کے تحت ریلوے کو نئے سرے سے بحال ہونا چاہئے اور اس مقصد کیلئے قدیم اور پرانے روٹ ایک بار پھر سے بحال ہونے چاہئیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سمہ سٹہ بہاولنگر سیکشن کو پھر سے بحال کیا جا رہا ہے۔ تھوڑا پس منظر کے بارے میں عرض کروں کہ سمہ سٹہ بہاولنگر ریلوے لائن 1895ء میں تعمیر ہوئی، یہ ریلوے لائن مملکت خداداد بہاولپور اور ہندوستان کے درمیان تجارت اور مواصلاتی سہولت کا اہم ذریعہ تھی۔ یہ ریلوے لائن امروکہ، بٹھنڈہ کے نام سے مشہور ہے۔
اس کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ یہاں سے دہلی کا سفر واہگہ بارڈر اور کھوکھرا پار سے کہیں کم ہے اور مزید اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ علاقہ کراچی، پشاور کے وسط میں ہے اور اس وجہ سے اس کی مرکزی حیثیت بنتی ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ واہگہ سے پہلے اس بارڈر کو کھولا جاتا تاکہ پاکستان کے درمیانی علاقوں کے ساتھ کوئٹہ، کراچی اور پشاور والوں کو ہندوستان جانے کیلئے برابر مسافت طے کرنا پڑتی اور سب لوگ سمہ سٹہ سے بذریعہ ٹرین دہلی چلے جاتے مگر ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کی اپنی ترجیحات اور اپنی سوچ ہے۔
 اگر قومی یا ملکی سوچ ہے تو سب سے پہلے امروکہ بٹھنڈہ بارڈ کھولا جانا چاہئے، واہگہ اور کھوکھرا پار کی باری بعد میں آتی ہے۔قیام پاکستان سے پہلے سمہ سٹہ تا دہلی براستہ امروکہ بٹھنڈہ بہت بڑا ریلوے روٹ تھا اور یہاں سے چلنے والی پسنجر و گڈز ٹرینوں کی تعداد دوسرے روٹوں سے کہیں زیادہ تھی اور بہاولنگر اس روٹ کا بہت بڑا اسٹیشن اور تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ بہاولنگر کا ریلوے اسٹیشن اتنا وسیع اور خوبصورت تھا کہ سیاح محض اسے دیکھنے کیلئے آتے تھے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد امروکہ بٹھنڈہ روٹ بند ہونے سے سب کچھ اجڑ گیا۔
آج اگر اس سٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی کا نظارہ کیا جاتا ہے تو سنگدل سے سنگدل آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں۔مشرف دور میں شیخ رشید ریلوے کے وزیر بنے ۔ خانپور آئے ، ان کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ جنکشن بحال ہوگا۔ چاچڑاں ریلوے دوبارہ بنائی جائے گی ‘ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بھی بنے گا اور انگریز دور کے منصوبے کے تحت خانپور کو ریلوے کا ہب بنایا جائیگا مگر عملی صورت سامنے نہیں آئی۔ کہنے کو کہا جاتا ہے پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ریلوے نظام کو توسیع دینے کی بجائے پاکستان میں انگریز کی طرف سے بنائے گئے کئی ریلوے سیکشن بند ہوئے اور سینکڑوں کلومیٹر ریلوے لائنیں اکھاڑ لی گئیں جبکہ بھارت نے ہزاروں کلومیٹر نئی ریلوے لائن بچھائیں اور کئی میٹر گیج سے براڈ گیج یعنی چھوٹی لائنوں کو بڑی لائنوں میں تبدیل کیا۔
 وگرنہ 126 کلومیٹر طویل سیکشن پر 31 ریلوے اسٹیشن عملی طور پر بے کار پڑے ہیں۔ اب موجودہ حکومت یہ سیکشن بحال کر دیتی ہے تو یہ اس کا مثبت قدم ہے اور علاقے کے لوگ دعائیں دیں گے مگر دوسری طرف بھارت کا ایک ریلوے اسٹیشن فاضل کا جو امروکہ سے آگے والا اسٹیشن ہے بند ہوا جبکہ اس سے اگلے سٹیشن بٹھنڈہ جنگشن کو بھارت نے اتنی وسعت دی کہ اب وہاں سے سات ریلوے لائنیں مختلف علاقوں کیلئے نکلتی ہیں اور ہمارا میکلوڈ جنکشن جسے اب منڈی صادق گنج کہا جاتا ہے، دیدہ عبرت بنا ہوا ہے۔ بٹھنڈہ سے آگے فیروز پور ہر طرح کی ترقی اور مواصلاتی سہولتوں سے مزین ہے جبکہ ہمارا بہاولنگر اسٹیشن بندہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے اس پر کبھی غور کیا کہ یہ ترقی ہے یا ترقی معکوس؟

 

 

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: