نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ کے ساتھ لمحۂ موجود پر بھی رحم کیجئے||حیدر جاوید سید

’’لیڈر کیسے بنتے ہیں‘‘ میں بات بلاول بھٹو اور مریم نواز سے شروع کی گئی اور پھر 10ہزار کلومیٹر کی رفتار سے وہ چند ہی سطروں میں یہ دعویٰ کرتے دیکھائی دیئے کہ امام زین العابدینؑ کے غیرفاطمی بھائی محمد ابن حنفیہؑ نے ہاشمی علوی عصبیت کی سیاست کا علم بلند کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خورشید ندیم سمیت دائیں بازو کے سکالرز اور دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ جب وہ عصبیت کے حوالے سے مسلم تاریخ میں سے من پسند اوراق اور ادوار پر دانش کے موتی رولتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خلافت راشدہ کو ملوکیت میں بدلنے والے دور کو نظرانداز کرکے بنو عباس کے عہد سے بات شروع کریں اور پھر یہ ثابت کریں کہ بنو عباس کا اقتدار اس عصبیت کی پیداوار تھا جو انہیں ہاشمیوں، فاطمیوں اور علویوں سے ملی۔
طالب علم حیران ہوتے ہیں کہ کوئی اس صفائی بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہ ’’دانشور‘‘ اپنے موقف کے حق میں صرف ان کتابوں کے استفادے کو آگے بڑھاتے ہیں جن سے ان کی دانش کو رزق ملتا ہو۔
برصغیر کے مسلم سماج کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ اس کے ’’اہل دانش‘‘ بلاد عرب کی مسلم تاریخ کو اولاً تو اسلام کی تاریخ کے طور پر پیش کرتے ہیں ثانیاً یہ کہ وہ اس کے وہی رنگ لوگوں (پڑھنے والوں) کے سامنے رکھتے ہیں جن سے ایک خاص فہم کا پرچار ہو اس طرح وہ قبائلی عصبیت کے ایک پورے دور کا ذکر ہی گول کرجاتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں لکھے گئے خورشید ندیم کے کالم
’’لیڈر کیسے بنتے ہیں‘‘ میں بات بلاول بھٹو اور مریم نواز سے شروع کی گئی اور پھر 10ہزار کلومیٹر کی رفتار سے وہ چند ہی سطروں میں یہ دعویٰ کرتے دیکھائی دیئے کہ امام زین العابدینؑ کے غیرفاطمی بھائی محمد ابن حنفیہؑ نے ہاشمی علوی عصبیت کی سیاست کا علم بلند کیا۔
محمد ابن حنفیہؑ جیسے عالم و زاہد کو من گھڑت الزامات کے تحت سیاست کا کردار بتانے والے کون تھے، خورشید ندیم یہ بھی لکھ دیتے تو مناسب رہتا۔
ایک طالب علم کے طور پر میری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ جن موضوعات پر ابھی مکالمے کی ضرورت ہے ان پر تحریریوں کے ’’خچر‘‘ دوڑانے کی ضرورت نہیں۔
اس کی اولین وجہ تو یہ ہے کہ ہمیں جو تاریخ ، اسلام کی تاریخ کے طور پر پڑھائی جاتی ہے وہ درحقیقت چند مسلم حکمران خاندانوں کے ادوار اور اعمال کی تاریخ ہے۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص تاریخ کو اپنے عقیدے کی آنکھ سے دیکھنے کے مرض میں نسل در نسل مبتلا ہے یوں مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں تاریخ پر گفتگو بھی کرنا چاہتے ہیں اور اس امر کے خواہش مند بھی ہوتے ہیں کہ تقدسات کا ہالہ ساتھ ساتھ چلتا رہے۔
تاریخ بذات خود ایک مضمون ہے انسانوں کا لکھا ہوا، یہ الہامی کتاب نہیں کہ من و عن تسلیم نہ کیا تو قابل گردن زدنی ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فاطمی، ہاشمی و علوی عصبیت پر بات کرنے کی ہے تو پھر اس سے قبل جنم لینے والی عصبیتوں اور ان پر اٹھی تاریخ و اقتدارات کی عمارت پر بھی گفتگو کیجئے۔
مکرر عرض ہے یہ گفتگو اس لئے ممکن نہیں رہی کہ ہم میں سے ہر شخص کے اپنے مقدسات ہیں اور اپنے تعزیری قوانین اور ہر شخص انہی دو کو حق سمجھتا ہے جو اس کے نزدیک حق ہیں۔
یہ فہم اصل میں یک رخی مطالعہ یعنی محض پسند کے اوراق کا رٹا لگانے سے پیدا ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امام زین العابدینؑ کی مدینہ واپسی کے بعد جس چچا (محمد ابن حنفیہؑ) نے زندگی بھر اپنے بھائی امام حسینؑ کے وارث کا ساتھ دیا اسے ایک انحرافی تحریک کے سربراہ کے طور پر پیش کرکے اپنے من پسند انداز میں حظ اٹھاتے ہیں۔
یہاں اگر سوال پوچھ لیا جائے پھر یہ انحرافی تحریک کامیاب کیوں نہ ہوپائی، اصولی طور پر تو اس کے لئے حالات سازگار تھے، تحریک کو کامیاب ہونا چاہیے تھا؟
اس سوال کا جواب دینے کی بجائے بھاگ کر عباسی دور میں جاکھڑے ہوتے ہیں اور دعویٰ ٹھوک دیتے ہیں کہ عباسی خلافت کی طاقت اور اقتدار میں آنے کا رزق فاطمی، علوی، ہاشمی عصبیت تھی جو عباسیوں کو منتقل ہوگئی۔
درمیان کا پورا ایک عہد آسانی سے شکم میں اتاردیتے ہیں۔
اس فہم کا باوا آدم 125ہجری میں کوفہ میں پیدا ہونے والا سیف بن عمر تیمی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیف اور اس کے دو ساتھیوں کو اسی عہد کے فقہا نے زندیق قرار دیا لیکن سیف کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے فقہا کی رائے کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ متحدہ برصغیر یا اب پاکستان میں موجود لیڈروں سے وابستہ عصبیت کا موازنہ 13سو برس قبل کے حالات سے بنتا ہی نہیں۔
متحدہ برصغیر کے تمام منقسم حصوں کے سماجوں کی اپنی عصبیت اور تاریخ ہے۔ مقامی یا حملہ آور حکمرانوں کے خاندانوں سے وفاداری کو زندگی کا اصل یا ایمان کا حصہ سمجھنے والی سوچ کو پذیرائی اس لئے ملی کہ ہر دو کی پشت پر ایک طاقتور ریاستی لشکر موجود ہوتا ہے۔
ان سماج کے لوگوں کا ایک طبقہ انہیں اپنا ہیرو یا لیڈر سمجھتا ہے جو ان کے خیال میں طاقت کے مراکز کے لئے چیلنج ہوتے ہیں۔
ادوار اور حکومتوں کے الٹ پلٹ کے بعد آج ہم جہاں کھڑے ہیں یہ قبائلی تعصب کا ڈیڑھ ہزار سالہ پرانا دور یا اس کے اثرات نہیں بلکہ پسند و ناپسند پر تقسیم طبقات ہیں۔
ایک طبقہ کے لئے بھٹو خاندان آئیڈیل و محبوب اس لئے ہے کہ بھٹو پھانسی چڑھائے گئے، بینظیر بھٹو اور دو بھائی سینکڑوں کارکنوں سمیت قتل ہوئے اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔
پنجاب کا بڑا حصہ اگر نوازشریف خاندان کے ساتھ ہے تو اس کی وجہ نوازشریف کو تین بار اقتدار سے نکالا جانا ہے یہ محبت ریاست کے دو خاندانوں کے ساتھ ’’حسن سلوک‘‘ کا ان کے حامیوں کی طرف سے جواب ہے۔
اس سیاسی عصبیت کی بنیادیں ہاشمی، فاطمی، علوی اور عباسی عصبیت میں تلاش کرتے وقت یہ دانشور ریاست کے کردار کو اموی حاکمیت کے نئے چہرے کے طور پر کیوں نہیں دیکھتے؟
بدقسمتی ہی کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ان دوستوں کو اس امر کا احساس ہی نہیں کہ ہر عصبیت اپنے عہد کے حالات و واقعات سے جنم لیتی ہے ماضی کی عصبیت سے رزق نہیں پاتی ثانیاً یہ کہ آخر یہ سمجھنے کی زحمت کیوں نہیں کی جارہی کہ تباہ حال ماضی سبق سیکھنے کے لئے ہوتا ہے پیروی کے لئے ہرگز نہیں۔
سیاسی عمل و عصبیت کی بنیادیں مسلم تاریخ میں سے تلاش کرنے کی بجائے اہل دانش کو عصری شعور کے ساتھ لوگوں کی درست سمت رہنمائی کرتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ مذہب کی تاریخ ہوتی ہے، مذہب کے پیروکاروں کی بھی مگر تاریخ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کیونکہ تاریخ کا مذہب ہوگا تو پھر یہ عقیدوں میں تقسیم ہوگی نتیجہ وہی نکلے گا جو مذہبی سماج بنانے سے نکلتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author