اعزاز سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں داخلی سیاست اتنی ہنگامہ خیز اوردلچسپ ہے کہ ہم اکثر اردگرد رونما ہوتے واقعات نظرانداز کردیتےہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری ہمیں افغانستان کے تناظر میں دیکھتی ہےاوروہاں رونما ہوتے واقعات خطے اور پاکستان دونوں پراثراندازہوتے ہیں۔
پاکستان میں مکمل جمہوریت نافذنہیں ہے اس لیے خارجہ امور کے بارے میں بنیادی فیصلے پارلیمینٹ میں نہیں ہوتے۔افغانستان کے امورمیں سیکیورٹی ایک اہم جزوہے لہذا اس پرپالیسی کے معاملے میں پاکستان فوج اور آئی ایس آئی ایک کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔
اگرآپ نے افغانستان کو سمجھنا ہے تو طالبان کو سمجھنا ہوگا اگرطالبان کو سمجھنا ہے تو پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے اور اگر پاکستان کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی فوج اوراسکے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
امریکہ کی طرف سے مارچ ۲۰۲۰ میں افغانستان کی حکومت کو نظرانداز کرتے ہوئے افغان حکومت سے ہی برسرپیکارافغان طالبان یا امارات اسلامیہ سے قطرمیں معاہدے نے جہاں ایک طرف دھشتگردی کے خلاف جنگ کے عملی خاتمے کا ڈنکا بجایا وہاں افغانستان کے اندرافغان حکومت کے مقابلے میں طالبان کو مزید مستحکم بھی کیا۔ یوں طالبان افغانستان میں عسکری کے ساتھ ساتھ سیاسی حوالے سے بھی دوبارہ زورپکڑگئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن کرسی صدارت پربراجمان ہوئے تو انہوں نے افغانستان سے امریکی وبین الاقوامی فورسز کے ستمبر۲۰۲۱ تک کےانخلا کااعلان کردیا یوں طالبان کو مزید طاقت مل گئی۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغانستان میں سب سے موثرمسلح گروپ افغان طالبان یا امارات اسلامیہ ہے۔ظاہر ہے یہ بات عالمی برادری کوبھی نظرآرہی ہے کہ افغانستان سےاںخلا کے بعد طالبان اقتدارحاصل کرلیں گےاسی لیے امریکہ افغانستان سے نکل کربھی اپنی سلامتی کے تناظر میں افغانستان پرکڑی نظررکھنا چاہتا ہے۔اس مقصد کے لیے پاکستان سے آڈوں اورلاجسٹک سپورٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستان شروع دن سے افغانستان میں طالبان کا حامی رہا ہے۔صرف نائن الیون کے فوری بعد کا کچھ عرصہ ایسا تھا جس میں ہم طالبان سے دورہوئے تھے مگر”کٹی” نہیں کی تھی بلکہ انہیں اپنی مجبوریوں کے بارے میں آگاہ کردیا تھا جو انہوں نے تسلیم بھی کرلی تھیں۔ چند سال یہ سلسلہ جاری رہا مگر آرمی چیف جنرل کیانی کے دورمیں مجبوری کی وجہ سے اختیارکی گئی دوریاں پھرخاموشی سے ختم کردی گئیں اور تعاون کا خفیہ سلسلہ دوبارہ چل پڑا۔
اب طالبان ہمارے اورچند دیگر ممالک کے تعاون سے بھرپور طاقت اختیار کرچکے ہیں۔ان کے جنگجو کابل اورکندھار کے اردگرپہنچ چکے ہیں۔ پاکستان اگرطالبان کی حمایت کرتا ہے تو کالعدم تحریک طالبان اور اس سے جڑے عسکریت پسند جتھے مزید مستحکم ہوتے ہیں جبکہ ایران کی مداخلت بھی بڑھنے کا خدشہ ہےاور اگر امریکہ سے تعاون کیا جاتا ہے تو افغان طالبان کی طرف سے باضابطہ لڑائی کا خطرہ ہے۔ یعنی دونوں راستے مشکل ہیں۔
امریکی پالیسی کے تحت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی افغان طالبان سے دوری اختیارکرنے کا عندیہ دے دیا ہے اب پاکستان پرسب کی نظریں ہیں۔
اسی تناظر میں ۲۴ مئی ۲۰۲۱ کو وزیراعظم عمران خان نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں اعلی۱ سطحی سیکیورٹی اجلاس کی صدارت کی ہے۔آئی ایس آئی میں ایس ڈائریکٹوریٹ افغان امورکی نگرانی کرتا ہے اس کے سربراہ نے وزیراعظم اوران کے وزرا کو تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں افغانستان کی تازہ صورتحال پربریفنگ دی ہے۔ وزیراعظم کو امریکہ کی خواہشات اور اس حوالے سے پاکستان کے لیے مجوزہ امکانات اورراستوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ہے۔
میری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس سارے معاملے پرعالمی برادری کا ساتھ دینے کافطری فیصلہ کیا ہےتاہم اس کے ساتھ طالبان کو بھی "انگیج” کیا جائے گا۔ظاہر ہے کمزورمعیشت کے ساتھ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہے ہی نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اس غیرمعمولی اجلاس کے دوروز بعد ۲۶ مئی کو طالبان کے ترجمان جناب سہیل شاہین کی طرف سے امارات اسلامیہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "پڑوسی ممالک امریکہ کو اڈے دینے کی غلطی نہ کریں ورنہ ہم اسکو برداشت کریں گے نہ اس پر خاموش بیٹھیں گے” ۔ اس بیان میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا لیکن ظاہر ہے مخاطب پاکستان ہی کو کیا گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ طالبان نے کھلے عام پاکستان کو آنکھیں دکھائی ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان نے امریکہ اورطالبان کا معاہدہ کروانے میں کلیدی کردارادا کیا تھا جس کے جواب میں طالبان نے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ کروانے کی کوشش کی اور اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل خفیہ مذاکرات بھی کروائے تاہم وہ بے نتیجہ رہے۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کی طاقت اور کمزوریوں کو بہت اچھے سے جانتے ہیں۔
پاکستان کے پاس امریکہ کی آپشن ہے تو طالبان کے پاس پاکستان سےاعلانیہ یا غیر اعلانیہ جنگ کا راستہ۔ طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں کا ایجنڈااورمقاصد ایک ہیں تاہم میدان الگ الگ ہیں۔ ڈریہ ہے کہ یہ میدان مشترکہ میدان نہ بن جائیں۔
پاکستان کے لیے اس مشکل صورتحال میں مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے پر قومی سیاسی قیادت کو بے خبر رکھا گیا ہے۔اگلے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ انہیں ابھی تک افغانستان کی صورتحال سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھی صورتحال مختلف نہیں۔ بلوچستان ، خیبرپختونخواہ کی سیاسی جماعتیں بھی اس بارے میں لاعلم ہیں۔
اس نازک معاملے پرفوری طورپر سیاسی قیادت سے مشاورت اورانہیں اعتمادمیں لے کرایک قومی پالیسی مرتب دینے کی ضرورت ہے۔ طالبان نے توہمیں کھل کردھمکی دی ہے مگرعالمی برادری نے خاموش رہ کرہماری معاشی مجبوریوں کو دھمکی کی طرح استعمال کیا ہے۔ نئی افغان پالیسی پرقومی اتفاق رائے قائم نہ کیا گیا توغلطیوں کا قومی امکان ہے۔ ایک بھی غلطی ہوئی تو دھمکی دھمکی نہیں رہے گی حقیقی مسئلہ اختیارکرلےگی جوپاکستان کے لیے یقینی طورپر تباہ کن ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید
خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید
وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید
پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر