اسلام آباد:گزشتہ بیس برس سے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان حامد میر پر دوسری بار پابندی عائد کر دی گئی ۔ پہلی پابندی ان پر سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں عائد کی گئی تھی.
جیو نیوز نے اپنے معروف پروگرام کیپیٹل ٹاک کے اینکر پرسن حامد میر پر پابندی عائد کر دی ۔ آج رات سے وہ ناظرین کو کیپٹل ٹاک کی میزبانی نہیں کر سکیں گے ۔
جیو ٹی وی کی انتظامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ اینکرپرسن حامد میر جیو ٹی کے معروف پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی آج نہیں کریں گے۔
جیو انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق حامد میر کو چند دنوں کی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
حامد میر نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو پروگرام آف ایئر کیے جانے تصدیق کی ہے۔
ذرائع کے مطابق حامد میر کو نوکری سے برخواست کرنے کے لیے جیو نیوز پر شدید دباؤ بھی ہے۔
وہ گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر خبروں میں ہیں۔ گذشتہ جمعے کو اسلام آباد میں صحافی اسد علی طور پر حملے کے خلاف ہونے احتجاج میں حامد میر نے اپنے خطاب میں پاکستانی فوج کے افسران پر نام لیے بغیر شدید تنقید کی تھی۔
جیو ٹی وی پر حامد میر کا پروگرام پاکستان کے سرفہرست ٹاک شوز میں سے ایک ہے۔ کیپیٹل ٹاک کا آغاز 2002 میں ہوا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک پروگرام جاری ہے۔ 2018 میں ایک دفعہ حامد میر نے جیو کو چھوڑا تھا تو اس وقت بھی پروگرام دوسرے میزبان کے ساتھ جاری رہا اور جب انہوں نے چینل کو دوبارہ جوائن کیا تو دوبارہ اسی پروگرام کی میزبانی شروع کی۔
اپریل 2014 میں حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔
صحافی وسیم عباسی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ کیپٹل ٹالک اب حامد میر کے بغیر ہوگا، جیوپر حامد میر پر پابندی عائد۔سوشل میڈیا پر جنگ گروپ کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
کیپٹل ٹالک اب حامد میر کے بغیر ہو گا۔ جیو پر حامد میر پر پابندی عائد
— Waseem Abbasi (@Wabbasi007) May 31, 2021
حامد میر نے تین روز قبل اسد طور پر حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران گفتگو میں کہا تھا کہ اب ہم کھل کر بات کریں گے ۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اگر “آپ” نے صحافیو ں پر حملے بند نہ کیے تو ہم بھی بتائیں گے کہ “ کس کی بیوی نے کس پر کہاں گولی چلائی تھی “
حامد میر اپنی اس گفتگو کے بعد سوشل میڈیا سمیت عالمی میڈیاپر زیر بحث ہیں ۔
اسی وقت سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جیو کی انتظامیہ اب یہ “بوجھ “ مشکل سے ہی برداشت کر پائے گی ۔ حامد میر نے اپنی گفتگو کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ صحافی بہت سی باتیں اس وجہ سے نہیں کر سکتے کہ اسٹیبلشمنٹ میڈیا مالکان پر دباؤ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے ادارے بند ہو جاتے ہیں اور کئی صحافی بے روزگار ہو جاتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ اب ہمیں کھل کر بات کر نی ہوگی ۔
حامد میر نے گذشتہ دنوں اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک طرف صحافیوں کے تحفظ کا قانون لایا جا رہا ہے دوسری طرف میڈیا ٹربیونلز بنائے جا رہے ہیں جو کروڑوں کے جرمانے کرینگے تین سال قید کی سزا دینگے اور جن کے فیصلے ہائی کورٹ میں نہیں صرف سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکیں گے اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئیے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا کا 5واں خطرناک ملک ہے۔فریڈم نیٹورک پاکستان کے مطابق ایک سال میں صحافیوں پر 148 حملے ہوئے ہیں۔اسلام آباد میں صحافیوں پر سب سے زیادہ حملے ہو رہے ہیں۔ پریس فریڈم اینڈیکس میں پاکستان صرف دو سال میں 139 سے 145 پر آ گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کو مسترد کر تی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے ذریعے میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے،
شیری رحمان نے کہا کہ یہ ‘میڈیا مارشل لا’ قابل مذمت ہے، اس کی بھرپور مخالفت کرے گے،
جرنلسٹ پروٹیکشن بل اسیمبلی سے پاس ہونے کے بعد اس آرڈیننس کی تیاری کرنا حکومت کا دوہرا معیار ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ عالمی اداروں نے بھی ملک میں سنسرشپ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ اس اتھارٹی کے تحت میڈیا کی مزید سخت نگرانی کا منصوبا بن رہا ہے، اس اتھارٹی کے ذریعے صحافیوں کو نکالا جائے گا اور جرمانے لاگو کئے جائے گے۔شیری رحمان نے کہا کہ حکومت کی میڈیا کو وضاحت فراہم کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اس قانون کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر قابو پانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ یہ تباہی سرکار کا سنسرشپ کو ادارتی اور قانونی تحفظ دینے کا منصوبہ ہے۔اس کے بعد میڈیا ادارے یا تو ریاستی ترجمان بن جائے گے یا بند ہوجائے گے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ