نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بس کچھ باتیں واتیں ہی ہیں||حیدر جاوید سید

ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ احساس مزید دوچند ہوتا جارہاہے کہ دستیاب سیاسی جماعتوں کو عوام کے حقیقی مسائل سے محض ’’فیشنی‘‘ دلچسپی ہے، عملی طور پر ان مسائل کے حل کے لئے کوئی بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ احساس مزید دوچند ہوتا جارہاہے کہ دستیاب سیاسی جماعتوں کو عوام کے حقیقی مسائل سے محض ’’فیشنی‘‘ دلچسپی ہے، عملی طور پر ان مسائل کے حل کے لئے کوئی بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری، غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تعلیم کو تجارت بنادیا گیا اور طبی سہولیات کا فقدان ہے۔
حکومت کا صرف یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ صبح شام تکرار کے ساتھ بس ایک ہی بات کرے، سابق حکمران لوٹ کر کھاگئے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی درشنی بیانات دے کر مطمئن ہیں۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتیں اب خانقاہیں بن گئی ہیں کارکنوں کی جگہ مریدوں اور مجاوروں نے لے لی ہے۔ وہ سیاسی کارکن رہے ہی نہیں جو روزمرہ کے مسائل پر توانا آواز میں بات کرتے تھے۔
کیا اس صورتحال کا ذمہ دار مجموعی طور پر ان غیرجمہوری حکومتوں کو قرار دیا جائے جن کی وجہ سے سیاسی اقدار اور سماجی رویے برباد ہوئے یا کچھ قصور سیاسی جماعتوں کا بھی ہے؟
ہماری دانست میں بچے کھچے سیاسی کارکنوں کو اس پر مکالمہ کرنا چاہیے۔ البتہ یہ امر مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ مکالمے کو ملاکھڑے میں تبدیل نہ کیا جائے۔
کیسی بدقسمتی ہے کہ منتخب پارلیمان کے ہوتے ہوئے امور مملکت چلانے کے لئے آرڈیننسوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ’’ہمیں قانون سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت دستیاب نہیں‘‘۔
اصل بات یہ ہے کہ آپ وسعت قلبی سے محروم ہیں۔ اپوزیشن کا ذکر آتے ہی جلنے کڑھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ جمہوری نظام کا حسن یہی ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھتے ہیں اور درمیانی راستہ نکالنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں
مگر اب صرف بھانڈوں کی طرح فقرے اچھالے جاتے ہیں۔ ایک طرف حکومت اور حزب اختلاف نفرتوں کے ہمالیہ پر کھڑے ہیں، دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتیں باہم دست و گریباں ہیں۔
ستم بالائے ستم جن اداروں سے قانون اور دستور کی حاکمیت کی پاسداری کی توقعات کی جاتی ہیں ان کے فیصلوں اور اقدامات سے پسندوناپسند صاف عیاں ہے۔
اب ہوگا کیا، معاملات کیسے بہتر ہوں گے؟ آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہو تو عنایت کیجئے گا۔ تمہیدی سطور طویل ہوگئیں لیکن کیا کیجئے، آدمی چار اور کے حالات اور مسائل سے دامن بچا کر بھی تو نہیں جی سکتا۔
آگے بڑھتے ہیں لیکن اس سے قبل بہاولپور سے ملک عبدالکریم کا مختصر خط پڑھ لیجئے۔ ملک عبدالکریم لکھتے ہیں
’’زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن کسی کو احساس ہی نہیں کہ یہ ریڑھ کی ہڈی مسائل کے بوجھ سے تڑخنے والی ہے۔ زرعی ادویات اور کھادیں اس قدر مہنگی ہیں کہ فی ایکڑ لاگت پوری نہیں ہوتی۔ اجناس کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ چھوٹے کاشتکاروں کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔ آخر حکومت ہمیں یہ حق کیوں نہیں دیتی کہ ہم اپنی پیدا کردہ اجناس کی قیمت فروخت خود طے کریں‘‘۔
مسائل تو یقیناً دوسرے شعبوں کی طرح زرعی شعبہ کو بھی لاحق ہیں۔ ملک صاحب کے موقف کا جواب ظاہر ہے ارباب حکومت کو دینا چاہیے مجھے ان کی اس بات پر اتفاق ہے کہ اجناس کی قیمت فروخت طے کرنے کا حق کاشتکار کو ملنا چاہیے ورنہ یہی ہوگا کہ کھیت سے ٹماٹر 3روپے کلو اٹھائے جائیں گے اور بازار کے دام ہر شہر میں اپنے اپنے۔
گندم سرکار 1800سو روپے من خریدے گی مگر 20کلو آٹا کا تھیلا فلور مل ایسوسی ایشن کے نرخوں پر فروخت ہوگا۔ آجکل تو 20کلو آٹا کا تھیلا 11سو روپے میں بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ حکومت نے چینی کی قیمت 85روپے مقرر کی فروخت 120روپے تک ہورہی ہے۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ زرعی شعبہ نظرانداز ہوا،
لے دے کر پیپلزپارٹی کے دور میں کچھ توجہ دی گئی تھی لیکن بھرپور توجہ اس لئے نہ دی جاسکی کہ افتخار چودھری روز عدالت لگاکر بیٹھ جاتے تھے ازخود نوٹسوں والی اور حکومت پیشیاں بھگتی رہتی تھی۔
ایک وقت تھا جب سموسوں کی قیمت اور ٹریفک جام پر سوموٹو ہوجاتا تھا تب یہ لطیفہ بھی مشہور ہوا کہ کوئی بندہ شاہراہ دستور پر آوازیں لگاتا ہے ’’سوموٹو کرالو‘‘۔
خیر چھوڑیں کالم کے دامن میں گنجائش کم رہ گئی ہے۔
رمضان المبارک میں پھٹے توڑ مہنگائی نے لوگوں کی جو درگت بنائی ہے حکومت اس مہنگائی کو ہی کچھ کم کروادے۔
ویسے کیا حکومت کے پاس لوگوں کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کا وقت ہے؟
بظاہر لگتا تو نہیں شاید عیدالفطر کی چھٹیوں میں کچھ وقت نکل آئے اور حکومت عوام کا احساس کرلے۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ چھٹیوں میں حکومت بھی چھٹی پر ہوگی وہ بھی تو عید منائے گی۔
آخری بات یہ کہ وزیراعظم کو چاہیے کہ ایک بار یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں منظور ہوئی قرارداد کو اچھی طرح خود پڑھ لیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author