نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حافظ ریاض درانیؒ، ایک اُجلا سیاسی کارکن||حیدر جاوید سید

گلوبل ویلج میں خبر پلک جھپکتے پورے کرہ ارض میں پھیل جاتی کے لیکن کورونا وبا سے بنی صورتحال اتنی افسوس ناک ہے کہ ایک محترم دوست حافظ محمد ریاض درانی کے سانحہ ارتحال سے لگ بھگ 20دن بعد آگاہ ہوپایا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلوبل ویلج میں خبر پلک جھپکتے پورے کرہ ارض میں پھیل جاتی کے لیکن کورونا وبا سے بنی صورتحال اتنی افسوس ناک ہے کہ ایک محترم دوست حافظ محمد ریاض درانی کے سانحہ ارتحال سے لگ بھگ 20دن بعد آگاہ ہوپایا۔
حافظ صاحب مرحوم کی اقامت گاہ وحدت روڈ پر بھیکے وال موڑ پر ہے اور میں جوہر ٹائون میں مقیم ہوں۔ چند کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ ہے کورونا سے پیدا ہوئی صورتحال جس میں کسی کو کسی کے بارے علم نہیں۔
حافظ محمد ریاض درانی سے تعارف 1980ء کی دہائی کے چھٹے یا ساتویں سال میں ہوا تھا۔ میں ان دنوں ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ لاہور کا ایڈیٹر تھا۔
ایک دن وہ مجھ سے ملنے تشریف لائے۔ دفتر کے دوسرے ساتھی حیران تھی کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والی شخصیت ہمارے دفتر میں کیسے۔
بدقسمتی ہی کہہ لیجئے کہ اب ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں ذات پات اور عقیدہ دیکھ کر مراسم رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
حافظ صاحب کی آمد کا سبب میری ایک تحریر بنی جس میں 1970ء کے انتخابات میں کبیروالہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ کے تین امیدواروں کا ذکر تھا۔
یہ امیدوار تھے پیر سید نوبہار شاہؒ آف قتال پور، سید عباس گردیزیں اور پیر سید خورشید احمد ہمدانیؒ۔
ایک ہی حلقہ انتخاب سے تین بزرگ سید امیدوار تھے ان میں سے پیپلزپارٹی کے امیدوار سید عباس گردیزی کامیاب ہوئے اور دو بزرگ ہار گئے۔
پیر سید خورشید احمدؒ میرے خالو جان تھے۔ حافظ ریاض درانی انہی کی نسبت سے ملنے کے لئے تشریف لائے۔ ان کے والد بزرگوار قبلہ مولانا مہابت خانؒ، ہمارے خالو جان کے خلیفہ مجاز تھے۔ یہ پہلا تعارف تھا۔
ہم ان دنوں ماڈل ٹائون کے این بلاک والے فلیٹس میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ بعدازاں ہر ہفتے دس دن بعد ان سے ملاقات رہتی۔ معمول کی یہ ملاقاتیں میرے پشاور تبادلے کے سال تک جاری رہیں جب مجھے مشرق لاہور سے پشاور مشرق کے ادارتی عملے میں شامل کرلیا گیا۔
پشاور سے جب بھی لاہور آتا ان سے لازماً ملاقات ہوتی۔ ان کی اقامت گاہ پر جے یو آئی (ف) کے متعدد رہنمائوں کے انٹرویو بھی کئے۔
حافظ محمد ریاض درانی کئی برس جے یو آئی (ف) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر فرائض ادا کرتے رہے۔ اس حیثیت میں انہوں نے صحافیوں اور جے یو آئی (ف) کے درمیان فاصلے کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
صاف گو، وسیع مطالعہ اور نظریاتی شخص تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں انہوں نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ لکھنے پڑھنے سے بھرپور دلچسپی رکھتے تھے۔ وحدت روڈ پر بھیکے وال موڑ پر موجود گورنمنٹ ہائی سکول سے ملحقہ مسجد میں پہلے ان کے والد بزرگوار پیش نماز اور خطیب، جمعہ و جماعت تھے بعدازاں حافظ ریاض درانی نے یہ منصب سنبھالا۔
زندگی انہوں نے مولوی کی بجائے معلم کے طور پر بسر کی۔ ذریعہ آمدنی بھی معلمی ہی تھا۔ نام بھول رہا ہوں انہوں نے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا تھا رواں صدی کے ابتدائی برسوں میں انہوں نے اپنی جماعتی فکر کی ترویج کے لئے کتابیں بھی شائع کیں۔
حافظ ریاض درانی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے مرکزی عہدیدار تھے لیکن ذاتی زندگی میں دوسرے لوگوں کی طرح ایک عام شخص تھے۔ دوستوں کی محفل میں سادہ اطوار دہقان کی طرح زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے۔ مجلس آرائی کے شوقین، انہیں بس پتہ لگنا چاہیے تھا کہ فلاں دوست لاہور میں موجود ہے پھر وہ دوستوں کو اپنی اقامت گاہ پر جمع کرتے ماحضر پیش کرتے اورخوب محفل جمتی۔
ان میں وہ ساری خوبیاں تھیں جو ایک وضعدار شخص میں ہوتی ہیں۔ ایثار کا جذبہ وافر مقدار میں رکھتے تھے۔ سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کا ہو ان کے لئے قابل احترام ہوتا۔
حافظ ریاض درانی دوستوں کے دوست تھے۔ زندہ دل اور زندگی سے بھرپور انسان۔ مکالمے اور مطالعے کے شوقین، رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ وہ اپنا سفر حیات مکمل کرکے رخصت ہوگئے۔ رمٗضان المبارک کے انہی ایام میں جے یو آئی (ف) کے دو دیگر اہم رہنما بھی وفات پاگئے ادریس اپل اور حافظ محمد ابوبکر۔ حافظ ابو بکر ایک حادثے میں شدید زخمی ہوئے۔ چند دن زندگی کی طرف لوٹنے کی سرتوڑ کوششیں کیں لیکن وقت مقررہ آن پہنچا۔ ان تینوں مرحومین نے اپنی جوانیاں اپنے سیاسی نظریہ کو دیں، کیا اُجلے اور کھرے سیاسی کارکن تھے۔
اب تو سیاسی کارکن تلاش کرنا پڑتے ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کو ’’خانقاہیں‘‘ بنادیا گیا ہے۔ کارکنوں کی جگہ مریدین اورمجاوروں نے لے لی ہے۔
پچھلی شب سے کچھ پہلے ایک دوست کے توسط سے حافظ ریاض درانی کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی۔ ایک مہربان اور شفیق دوست کے سانحہ ارتحال نے دکھی کردیا۔
ریاض درانی اپنے بڑے اور نامور والد کی طرح اعلیٰ ظرف انسان تھے۔ انہوں نے دوستوںسے کبھی عقیدوں پر بحث کی نہ سوال اٹھائے۔ حقیقی معنوں میں سیاسی کارکن تھے اب ان جیسے لوگ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔
ایک طویل عرصہ ان سے تعلق خاطر رہا۔ تنگ نظری یا مذہبی جماعتوں کی روایتی گھٹن سے محفوظ شخص تھے۔ یقیناً اس کی وجہ ان کے مرحوم والد بزرگوار تھے جنہوں نے ایک صلح جو شخص کے طور پر زندگی بسر کی۔
حافظ ریاض درانی کا سانحہ ارتحال کسی صدمے سے کم نہیں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ حافظ ریاض درانی، ادریس اُپل اور حافظ محمد ابوبکر یہ تینوں مرحومین سیاسی کارکنوں کی شان تھے، حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author