اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مرگِ عام میں ماں جیسی ریاستیں! ||رانا محبوب اختر

بر صغیر میں مرگِ عام ایٹم بم چلنے سے پہلے آ دھمکی ہے۔ یہاں کروڑوں انسان بستے ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک "وہ" اور ان کے نزدیک ہم " انسان نہیں ۔ایک دوسرے کی تباہی کے لئے ہم نے ایٹم بم بنائے ہیں ۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بر صغیر میں مرگِ عام ایٹم بم چلنے سے پہلے آ دھمکی ہے۔ یہاں کروڑوں انسان بستے ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک "وہ” اور ان کے نزدیک ہم ” انسان نہیں ۔ایک دوسرے کی تباہی کے لئے ہم نے ایٹم بم بنائے ہیں ۔ ایٹمی بادل چھانے سے پہلے قدرت نے مگر کورونا بھیجا ہے اور مرگِ عام نے ایٹمی ہمسایوں کو کارٹون بنا دیا ہے۔دونوں ایٹمی طاقتوں کی طاقت ایک معمولی جرثومے کے سامنے ڈھیرہے۔ بھارت کے پاس تڑپتے مریضوں کے لئے آکسیجن اور لاشیں جلانے کے لئے جگہ کم ہے اور پاکستان کے پاس آبادی کی ضرورت کے مطابق ویکسین نہیں!
عہدِشکار میں آدمی نے درندگی اور قبضہ گیری سیکھی۔ رفتہ رفتہ سماج کی تشکیل ہوئی ۔ تہذیب عورت کی کرامت ہے ۔ جب مرد شکار پہ جاتے تو عورت بے خیالی میں پھینکے گئے بیجوں کو اگتا دیکھتی۔ پھر اس نے بیج بوئے ۔ بچوں کے ساتھ بلی، مرغی، کتے ، بھیڑ اور بکری پلنے لگے۔ مرد نے گھوڑے اور بیل سدھائے۔ول ڈیورانٹ کی پھلجھڑی یہ ہے کہ مرد وہ آخری جانور جسے عورت جزوی طور پر سدھا پائی ہے!جنگ ، تسلط ، ملکیت اور قبضہ ، مردانگی کے جوہر ہیں اور تہذیب ان عادتوں کے تذکیے کا نام ہے۔مذہب، اخلاقیات ، قوانین، ادارے، سیاست اور ریاست آدمی کی درندگی کو کم کرتے ہیں۔ نطشے نے کہا؛ "میرے خیال میں انسانی فطرت کی درندگی مرتی نہیں ہے۔یہ نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ پھلتی پھولتی ہے۔اس کے زیرِاثر ایذا رسانی کے عمل کو دیوتاؤں کی صفات سے جوڑا جاتا ہے۔عذاب سے گزرنا باعثِ راحت بن جاتا ہے”۔ روحانیت سے جوڑی گئی اذیت پسندی ، گیان اور عرفان کا ذریعہ ہے۔حالانکہ یہ انسانی فطرت میں چھپی درندگی ہے جو اسے اذیت سے لطف لینے پر مجبور کرتی ہے۔ قدیم روم میں قیدیوں کو عوامی اجتماع میں قتل کرنا اور بھوکے شیروں کے آگے پھینکنا تفریح تھا۔ عیسائی دنیا میں رضاکارانہ طور پر سولی چڑھنا روحانیت حاصل کرنے کا طریقہ تھا”۔ سپین میں بل فائٹنگ آج بھی مقبول سپورٹ ہے۔ جاپان میں ہارا کیری عزت سے وابستہ ہے۔زنجیر زنی اور انگاروں پہ چلنا عقیدہ اور روایت ہیں۔ دکھ جھیلنے میں معرفت ہے! بعض اوقات آدمی خود دکھ ایجاد کرتا ہے ۔ کورونا نام کا وائرس دکھ کی کائنات کا نیا بادشاہ ہے۔ ڈینش زبان کے لفظ کورونا کا معنی "تاج” ہے اور کورونا کی سلطنت میگا ہسپتال ہے! علی شریعتی کہتے ہیں کہ انسان ایک جدلیاتی مخلوق ہے ، جس کے اندر احسنِ تقویم اور اسفل السافلین کا معرکہ جاری ہے۔ہم زندگی کی بے حرمتی کے دور میں زندہ ہیں۔ایک جرثومے نے انسان کے عزازیلی غرور کو توڑ دیا ہے۔ ڈاکٹروں اور سائنس کی کرامت سے احسن تقویم کا کچھ بھرم قائم ہے !ڈاکٹروں کے قیاس پر ہم سیاسی رہنماوں کو بھی مسیحا کہتے ہیں۔خدا کے بندوں کی خدمت، مسیحائی ہے ! پاکستان اور بھارت میں عمران خاں اور نریندرا مودی مسیحا ہیں اور ایک آکسیجن اور دوسرے ویکسین کا انتظام کرنے میں ناکام ہیں !
آدمی نے صدیوں کی نو آبادیاتی قبضہ گیری اور لوٹ مار سے فطرت کے توازن کو بگاڑ دیا ہے!پوسٹ ٹرتھ، پوسٹ ماڈرن اور پوسٹ ہیپی نیپس عہد میں سچ اور خوشی سامراج، مارکیٹ اور میڈیا طے کرتے ہیں۔ غریب کا سچ اشرافیہ کے سچ سے مختلف ہے۔ غریبوں کے جسم پرقبضے کی جنگ جاری ہے ۔ جسم کے ظاہری برصغیر اور باطنی براعظم پر کورونائی یلغار ہے ۔فوکو ریاست اور فرد کے حوالے سے طاقت کے رشتوں کو کھولتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ریاست علم کے استعمال سے انسانی جسم پر قبضہ کر لے گی ۔ دنیا کو clinical gaze سے دیکھا جائے گا۔ہمارے عہد میں فرد کے جسم پر اس کی اپنی مرضی کی بجائے ، سماج، سامراج اور ریاست کی مرضی چلتی ہے!میرے جسم پر میری مرضی جرم ہے۔فحاشی ہے ۔ روح ، سماجی اور سامراجی تشکیل ہے۔ سامراجی ، سماجی اور اخلاقی روح ، حیاتیاتی جسم پر قابض ہے ۔ فوکو panopticonکی مثال دیتا ہے، ایک ایسا قید خانہ جس میں قیدیوں کے کمرے ایک دائرے میں ہیں۔دائرے کے درمیان ایک بڑا واچ ٹاور ہے جس میں ایک گارڈ بیٹھا سب قیدیوں پر نظر رکھتا ہے!ٹیکنالوجی سے غلامی کی نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں۔ AI یا مصنوعی ذہانت، نئے چیلنجز اپنے ساتھ لا رہی ہیں اور اہلِ دانش سوچتے ہیں کہ کورونائی قہر مصنوعی ذہانت سے مل کر انسان کو ڈیجیٹل کارٹون بنا دے گا اور ڈیٹاازم دنیا کا نیا مذہب ہوگا!
کیا ایک بار پھر "ظالم اور جاہل” انسان تخلیق کے حاشیے پر ہوگا۔ ایک جانور جو قابل ِذکر نہ تھا ، دس لاکھ سال کے سفر بعد پھر قابلِ ذکر نہ رہے گا۔ انسانوں کے جنگل کا بڑا حصہ کورونا کی کلہاڑی کاٹ دے گی!مگر تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ انسان کئی بار اس طرح کے بحرانوں سے گزرا ہے اور بعد از خرابی بسیار کنارے جا لگتا ہے۔ نوح ہراری کہتے ہیں کہ اگر انسان ایٹمی تباہی، ماحولیاتی آفات اور مصنوعی ذہانت کے چیلنجز سے کامیاب نکلا تو شاید وہ موت پر فتح پانے میں کامیاب ہو جائے ۔مگردنیا کو ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول سے زیادہ غربت اور بیماریوں کے خاتمے، وائرس، Biochemical Weaponsاور ماحولیاتی آفات پر زیادہ وقت اورسرمایہ لگانے کی ضرورت ہے۔ وائرس فطرت نے چمگادڑوں کے ذریعے بھیجا ہے یا انسان نے لیب میں بنایا ہے مگر اب یہ ایک حقیقت ہے ۔ انسانی تاریخ میں پرانی بادشاہتیں بائیو ہتھیار استعمال کرتی رہی ہیں ۔1320 قبل مسیح کے ایشیاء کوچک میں ٹیلرمیا بیماری میں مبتلا بھیڑیں دشمن ملک میں دھکیل دی جاتی تھیں۔ 1330 کے بعد بلیک ڈیتھ کے نتیجے میں یورپ کی آدھی آبادی ماری گئی تھی ۔کچھ مورخ یہ کہتے ہیں کہ منگولوں نے یہ وبا منجنیق سے Genoa کے قلعے کی دیواروں سے وبا میں مرنے والوں کی لاشیں پھینک کر پھیلائی تھی۔ انسان احسن اور اسفل کی کشمکش کا مارا ہوا ہے! اور شاید یہی کشمکشِ حیات آدمی کی تقدیر ہے۔پوسٹ کورونائی دنیا میں زندگی اقدار اور رفتار کے لحاظ سے مختلف ہوگی۔ممالک ، کارپوریشنز، اقوام اور افراد کی زندگی میں ناقابل ِیقین تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ قبضہ گیری، فوجی مخاصمت اور جنگ کے پرانے پیراڈائم پر استوار دنیا کو ایک منحنی جرثومہ منہدم کر رہا ہے۔ لینن نے کہا تھا:” There are decades when nothing happens, and there are weeks when decades happen” ۔ایٹمی ملکوں کے عوام مرگِ عام میں آکسیجن اور ویکسین کی کمی سے مر رہے ہیں! مرگِ عام سے اشرافیہ اور لیڈروں کی آنکھیں کھلنی چاہئیں۔غربت اور بیماری کا تدارک نہ ہوا تو انسانیت کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔ بڑی اور قہرمان حکومت سے زیادہ حکومت کا معیار اور رفتار ہوتے ہیں۔ تائیوان، ڈنمارک اور نیوزی لینڈ کی طرح ہمدرد ، ماہرانہ اور موثر حکومتوں نے کورونا کو قابو کرنے میں قابل تقلید مثالیں قائم کی ہیں۔ چین نے کمالات کا دبستان الگ ہے!کبھی آپ نے غور کیا کہ فطرت، بچے کو خوراک ، تحفظ اور محبت پہچانے کے لئے ماں کو وسائل سے مالامال کر کے بھیجتی ہے۔ماں کے جسم سے بچے کی خوراک کے لئے چشمے پھوٹتے ہیں۔بچے کے تحفظ کی ٹیکنالوجی اس کے جسم سے wired ہے اور غدہ نخامیہ یا آکسیٹوسن اس کے دماغ میں محبت کو بچے کے لمس سے جوڑ کر نور سے بھر دیتا ہے۔شاید اس لئے وسیب میں لوگ دودھ کو اللہ کا نور کہتے ہیں! ہم جیسے سادہ لوح اسی لئے ریاست کو ماں کے جیسی کہتے ہیں!ایک کیدو جج کے ساتھ کھڑے ہوکر اعتزاز احسن ریاست کو ماں کے جیسی کہتے تھے۔سرحد کے اس پار نریندرا مودی بھارت کو ماتا کہتے ہیں۔سرحد کے دونوں طرف مگر ایک ریاست کے پاس اپنے بچوں کے لئے آکسیجن کی کمی ہے اور دوسری کے پاس ویکسین کا مناسب انتظام نہیں۔ ریاستیں سامراج کی بوئی ہوئی نفرت سے قہر کا مجسمہ بن جائیں تو لوگ جگہ جگہ جمع ہو کر زندگی سے حقارت کا اظہار کرتے ہیں۔ کنبھ میلے میں موت کو دعوت دیتے ہیں۔ لاہور میں جشنِ مرگ برپا کرتے ہیں۔ جسم، سامراجی روح کی قید سے آزادی کے لئے لاشعوری طور موت کی خواہش سے بھر جاتے ہیں!

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

رانا محبوب اختر کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: