جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز پاکستان صوبہ پنجاب میں کمپیوٹرائزد اراضی ریکارڈ سنٹرز کے قیام کے باوجود پٹواری بادشاہ کی بادشاہت ابھی تک ختم نہیں ہو سکی. زمینوں سے متعلق زیادہ کیسز بلکہ لڑائی جگھڑوں کے اکثر کیسز کے پیچھے بھی اسی پٹواری بادشاہ کی بادشاہانہ سوچ اور کردار کارفرما ہوتا ہے.بس پٹواری کی لگائی ہوئی آگ،پٹواری کے بوے گئے شیطانی بیج اور ریکارڈ میں کی گئی بد دیانتی و توڑ پھوڑ کی وجہ سے لوگ سال ہاسال باہم لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں. ماشاء اللہ ہمارا عدالتی نظام اور عدالتیں بھی کیسز کے قابل سماعت ہونے نہ ہونے سے لیکر پھر حتمی فیصلہ ہونے تک جس پھرتی کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ بھی کسی المیے سے کم نہیں ہے. کیونکہ یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے. اس لیے اس کو یہیں پر روکتے ہوئے ہم اپنے آج کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں. ضلع چکوال کے ایک کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے ایک حکم جاری کیا ہے. پہلے اس کی خبر ملاحظہ فرمائیں.
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب بھر میں سرکاری پٹواریوں کے منشی رکھنے پر پابندی عائد کردی،عدالت کی جانب سے اراضی کا ریکارڈ کسی پرائیویٹ فرد یا پرائیویٹ دفتر سے برآمد ہونے پر متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار،گرداور اور پٹواری کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری، تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے یہ حکم ایک پٹواری کی خلاف زیرسماعت رشوت کے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیا،عدالت عالیہ نے جب ملزم پٹواری سے رشوت لینے کے متعلق استفسار کیا تو پٹواری بادشاہ نے جواب دیا کہ رشوت کی رقم میں نے نہیں بلکہ میرے منشی نے لی ہے،جس پر معزز عدالت نے فوری طور پر ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب کو احکامات جاری کئے کہ صوبہ بھر میں اگر اراضی کا ریکارڈ کسی پرائیویٹ فرد یا پرائیویٹ دفتر سے برآمد ہو تو نہ صرف متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر،تحصیلدار، گرداور اور پٹواری کیخلاف مقدمہ درج کیا جائے بلکہ انہیں گرفتار بھی کیا جائے، واضح رہے کہ صوبہ بھر کی طرح چکوال شہر سمیت ضلع بھر میں پٹواریوں نے اپنے اپنے پٹوار خانوں میں کئی کئی پرائیویٹ لوگ بطور منشی بھرتی کر رکھے ہیں جو نہ صرف پٹواری بادشاہوں کیلئے لوگوں سے رشوت اور نذرانے وصول کرتے ہیں بلکہ سادہ لوح لوگوں کی خون پسینے کی کمائی سے اپنی دیہاڑیاں بھی کھری کرتے ہیں،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری پٹوار خانوں میں پرائیویٹ منشیوں کی خلاف عدالتی احکامات پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے،اراضی کی خرید و فروخت اور دیگر امور کی طے شدہ سرکاری فیس بینکوں میں جمع کروائی جائے یا پھر سرکاری فیس وصول کرنے والے پٹواریوں کو رسید جاری کرنے کا پابند کیا جائے.
بلاشبہ یہ ہائیکورٹ کا بہت اچھا فیصلہ ہے. نوکروں کے نوکر اور نوکروں کے چاکر یقینا یہ سب خرابیوں میں مزید اضافے، رشوت کا نیٹ ورک اور ریٹ بڑھانے والی باتیں ہیں.ایک پٹواری کو ضرورت سے زیادہ حلقے، چک، موضعات دیئے جانے کی وجہ سے بھی اس یہ منشی سسٹم بڑھا ہے.رشوت و حرام خوری کی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ بھی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے.اگر دیکھا جائے تو یہ حکومتی سسٹم کے منہ پر تمانچے اور عوام کسان اور زمینداروں کے ساتھ بڑا ظلم و زیادتی ہے.
پٹواری بادشاہ سے جب تک اندراج خسرہ کا اختیار واپس نہیں لیا جاتا یا اس میں کوئی مزید سخت شرائط شامل نہیں کی جاتیں میں سمجھتا ہوں کہ زمین کے اندر اور پٹواری کے دل و دماغ میں پھیلی ہوئی یہ شیطانی جڑ فساد اور لڑائی جھگڑوں کا موجب بنی رہے گی.غلط اندراج خسرہ کرنے والے پٹواری کو زمین کی مارکیٹ مالیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر حال میں سزا و جرمانہ ہونا چاہئیے.سروس کے دوران تین چار بار غلطی کرنے والے کی ملازمت سے مکمل چھٹی کر دینی چاہئیے.مدعی کے معاف کر دینے یا کیس واپس لینے کے باوجود محکمے اور سٹیٹ کی جانب سے پٹواری کو غلطی کی سزا ضرور دی جانی چاہئیے. سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے دور میں محکمہ مال میں بہت ساری اچھی اصلاحات کی گئی ہیں جن کے فوائد بھی عوام کو ملے ہیں.زمین کے ناجائز مالک کو کسی صورت بھی کوئی چھوٹ، ریلیف نہیں ملنا چاہئیے. ناجائز قبضہ سرکاری زمین پر ہو یا پرائیویٹ زمین پر اسے کسی صورت برداشت نہ کیا جائے. ایسے لوگوں اور گروہوں کو بے نقاب کرکے چھترول ہونی چاہئیے. گم نامی زمینیں سٹیٹ کی ملکیت میں شامل کر لی جانی چاہئیں. کسی بھی سرکاری زمین کی فروخت بغیر اوپن بولی کے ہرگز نہیں ہونی چاہئیے. متعلقہ موضع میں اس کی عوامی و اخباری تشہیر، تحصیل و ضلع کے ساتھ ساتھ معروف علاقائی و قومی اخبارات میں اس کا اشتہار ضرور آنا چاہئیے.
محترم قارئین کرام،، دراصل ہمارے زمینی معاملات انگریز کے بنائے ہوئے ان تین قوانین، لینڈ ریونیو، ایکٹ1967ء، لینڈ ریونیو رولز 1968،لینڈ ریکارڈ مینوئل کے تحت چلائے اور بھگتائے جا رہے ہیں.افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان مذکورہ بالا قوانین پر بھی پورا عمل درآمد نہیں کیا جا رہا. جس کی وجہ سے مسائل و تنازعات بڑھ رہے ہیں. حالانکہ وقت اور حالات کے مطابق ان میں بھی بہت ساری ترامیم کرنے کی ضرورت ہے. کب اور کون کرے گا. حکمران اور سیاستدان باہم لڑائیوں سے فراغ نہیں ہیں بیورو کریسی کو ویسے ہی کھانے پینے والے راہ و راستے اور چور دروازے بند کرنا کسی صورت بھی اچھے نہیں لگتے.لینڈ ریکارڈ رول 39اور لینڈ ریکارڈ مینوئل کے باب نمبر9کے تحت فصلات ربیع و خریف کا رجسٹر خسرہ گرداوری میں اندراج کرنا اور اس کے تمام کالمز کو پُر کرنا بہت ضروری ہے. جن میں زمین کے مالک کا نام، کاشت کرنے والے کا نام،فصل وغیرہ درج کی جاتی ہے. یہ کام متعلقہ پٹواری نے موقع پر جا کر کرنا ہوتا ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ کئی سالوں سے پٹواری حضرات خسرہ گرداوری کے لیے موقع پر جانے کی بجائے اپنے دفتر یا گھر بیٹھے ہی خسرہ گرداوری کا اندراج کرتے چلے آ رہے ہیں.ایک بہت بڑا مسئلہ کھاتہ مشترکہ بھی ہے. جو زمین پر قبضوں اور لڑائی جھگڑوں کا سب سے زیادہ موجب ہے. اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے. لینڈ ایکٹ 1967کی دفعات 129تا132،لینڈ ریکارڈ رول1968کے رول64اور لینڈ ریکارڈ مینوئل کے پارٹ 4کے تحت زمین کی حد بندی کرنے والے حد بندی پتھر کے ہونے اور اس کی حفاظت کرنے کے حوالے سے پٹواری سے لیکر اوپر تک سب ذمہ داران بے خبر اور لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں.زمین کی حد بندی کے تنازعات کی صورت میں فیصلہ کرنے میں بنیادی کردار کے حامل حد بندی پتھر اکثر غائب ہو چکے ہیں. نہ تو کسی کے خلاف ان کے مقدمات درج کروائے گئے ہیں اور نہ ہی گم شدہ حد بندی پتھر دوبارہ لگوانے کی کسی نے ضرورت محسوس کی ہے.اس اہم ذمہ داری کو کب اور کون پورا کرے گا حالانکہ قوانین کی روح سے حد بندی پتھروں کی نگرانی و حفاظت پٹواری کی ذمہ داری ہے.محکمہ ریونیو حکومت پنجاب کو چاہئیے کہ وہ اس حوالے سے صوبے بھر کے ڈپٹی کمشنرز حضرات کو ٹائم فریم کے تحت پابند کرکے یہ کام کروائے. تاکہ عوام کے باہمی لڑائی جھگڑوں کو ختم یا خاطرخواہ حد تک کم کیا جا سکے. مشترکہ کھاتے کا رولا بھی ختم کرنے کے لیے قوانین اور رولز میں جہاں بھی کسی ترمیم کی ضرورت ہے اس فورا کیا جانا چاہئیے.ملک جنید اسلم نائچ جیسے زمیندار و کسان رہنما اس نیک کام کو کروانے کے لیے ہائیکورٹ کے دروازے پر بھی دستک دے سکتے ہیں. یہ کام بھی ایک لحاظ سے صدقہ جاریہ تصور کیا جائے گا. کیونکہ اصلاح سے بہت سارے لوگ لڑائی جھگڑوں سے یقینی طور پر بچ سکیں گے.
لاہور ہائیکورٹ کے مذکورہ بالا حکم و فیصلے پر عمل درآمد ہوگا یا نہیں. اس کی نگرانی کون کرے گا. کس کی رپورٹ پر انحصار کیا جائے گا.عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ہائیکورٹ از خود نوٹس لے گی یا کسی کو بتانے کے لیے کورٹ جانا پڑے گا. ان ساری باتوں کے متعلق وقت ہی بہتر بتائے گا. میرے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ہائیکورٹ زمین کے حد بندی پتھروں کے نہ ہونے یا غائب ہونے کے اہم معاملے کا ازخود نوٹس بھی لے سکتی ہے.وکلاء صاحبان اس حوالے سے رہنمائی فرما دیں تو مہربانی ہوگی.
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر