ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کوئی پوچھے ان نگوڑوں سے، کیوں ہم سے بار بار کہتے ہو کہ ہم اپنی بچیوں کو یہ ویکسین لگوائیں۔ یہ تو بنائی ہی موئی گوریوں کے لئے گئی ہے جو چھوٹی عمر میں ہی درجنوں بوائے فرینڈ رکھ چھوڑتی ہیں۔ اگر شادی کریں بھی تو بھلا ایک شادی تک محدود کہاں رہتی ہیں۔ تو انہیں تو ضرورت ہوئی نا۔ اب ہماری بچیاں یہ بوائے فرینڈ شرینڈ کیا جانیں۔ جہاں اماں ابا بیاہیں گے، چلی جائیں گی اور وہاں سے مر کے ہی نکلیں گی۔ پھر کیا ضرورت اس ویکسین کی؟ خواہ مخواہ پیسے کا ضیاع۔ بس بی بی یہ بتا دو کہ یہ بیماری ہماری طرف کی بچیوں کو تو نہیں ہوتی نا“
وہ خاتون ہمیں ایک تقریب میں ملی تھیں اور بات کرونا کی ویکسین سے شروع ہو کے ایک دوسری ویکسین تک آن پہنچی تھی۔ وہ اپنی بچیوں کے سکول سے بھیجی گئی معلومات پہ شاکی تھیں۔ جو بات انہیں ان کا ذہن سمجھاتا تھا، وہ ہم ماننے سے انکاری تھے اور جو ہم سمجھاتے تھے، ان کا دل شد و مد سے جھٹلاتا تھا۔
”جی، یہ بیماری ہماری طرف کے مرد و زن میں بھی بہت عام ہے“ ہم نے کہا۔
”ارے وہ کیسے؟ دیکھو یہ تو ہم بستری سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتی ہے نا“ وہ چمک کے بولیں،
”جی ہاں“
”اے نوج بی بی کچھ عقل کو ہاتھ ڈالو۔ جب ہم بستری ہی میاں بیوی کے درمیان ہو گی تو کہاں سے موا ٹپکے گا وائرس؟“
”یہی تو مصیبت ہے کہ گھر سے باہر بھی کافی بستر پائے جاتے ہیں“ ہم زیر لب بڑبڑائے،
”کیا کہا؟“
”جی، حقیقت یہی ہے کہ یہ وائرس ہم بستری سے ہی ایک دوسرے کو منتقل ہو کر بیماری پھیلاتا ہے۔ بیماری تو مرد و عورت دونوں کو ہو سکتی ہے لیکن بیماری کے نتیجے میں کینسر کا شکار عورت بنتی ہے۔ بچیوں کو ویکسین لگوانے کے لئے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ خود کسی غیراخلاقی گراوٹ میں مبتلا نہ بھی ہوں، تب بھی وہ کینسر کا شکار ہو سکتی ہیں اگر ان کا شوہر گھر سے باہر جنسی تعلقات سے شغف رکھتا ہو“ ہم نے چڑ کر کہا۔
صاحب، کرونا وائرس سے اور کچھ ہوا ہو یا نہیں، ہر ذی شعور یہ ضرور سمجھ گیا ہے کہ وائرس کی ہلاکت خیزی کیا ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک وائرس Human papiloma virus کے نام سے پایا جاتا ہے جس کا نشانہ کرونا وائرس کی طرح گلا یا پھیپھڑے نہیں بلکہ مرد و عورت کے جنسی اعضا ہوا کرتے ہیں۔
یہ انفیکشن مرد سے عورت، عورت سے مرد، مرد سے مرد اور عورت سے عورت کو بذریعہ جنسی تعلقات منتقل ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وائرس کوئی علامات پیدا نہیں کرتا لیکن بہت سے مریضوں میں چھوٹی چھوٹی لحمیاتی پھنسیاں نکل آتی ہیں جنہیں وارٹس ( warts ) کہا جاتا ہے۔ مرد کے بیرونی جنسی اعضا اور عورت کے بیرونی اور اندرونی جنسی اعضا پہ ان پھنسیوں کا موجود ہونا HPV انفیکشن کا ثبوت ہے۔
وائرس زیادہ تر جنسی کاروبار میں ملوث افراد میں پایا جاتا ہے اور وہیں سے مختلف لوگوں میں منتقل ہوتا ہے۔ HPV کی منتقلی کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ لیکن لوگ اپنی تسلی کے لئے بہت سی کہانیاں گھڑ لیتے ہیں۔
ہمیں ایک دفعہ ایک خاتون ملیں، جن کے شوہر اس وائرس کا شکار ہونے کے بعد قسمیں کھا کھا کے انہیں یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ انفیکشن ہوٹل کے تولیوں کے استعمال سے ہوئی ہے۔ کچھ اور کہانیوں میں شوہروں نے غلطی سے دوستوں کے استعمال شدہ زیر جامے کو مورد الزام ٹھہرایا۔
جب اس طرح کی توجیہہ کے بعد کوئی ہماری رائے جاننے کی کوشش کرتا ہے توہم چپ رہے، ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ تیرا کی تصویر بن جایا کرتے ہیں۔
ان وارٹس کا علاج لیزر یا بجلی کے ذریعے کیا جاتا ہے جہاں ان پھنسیوں کو جلایا جاتا ہے۔ یہ پھنسیاں ایک دفعہ جلانے سے ختم نہیں ہوتیں سو یہ عمل کئی دفعہ دہرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
خواتین کو اگر یہ انفیکشن حمل کے دوران ہو جائے تو طبعی زچگی کے نتیجے میں انفیکشن نوزائیدہ کو منتقل ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
اس انفیکشن کا سب سے بڑا خطرہ خواتین میں رحم کے منہ سروکس ( cervix) کا کینسر ہے جو وائرس کی ایک خاص قسم HPV 16 اور HPV 18 کا شکار بنتی ہیں۔ کینسر کے ستر فیصد مریضوں میں سبب HPV ہی ہوتا ہے۔
جس ویکسین کا ہم نے شروع میں ذکر کیا وہ انہی دو قسموں سے بچنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ سروکس کے کینسر سے بچنے کے لئے بچیوں کو یہ ویکسین گیارہ سے بارہ برس کی عمر میں لگائی جاتی ہے۔
بچیوں کو اوائل شباب میں ویکسین لگانے کی وجہ محض یہ ہے کہ نوعمری میں ویکسین لگانے سے اس کی افادیت زیادہ ہوتی ہے اور کسی بھی واسطے سے انفیکشن منتقل ہونے کا تحفظ تمام عمر رہتا ہے۔
ابتدا میں مسلمان خاندانوں میں اس ویکسین کے خلاف کافی مزاحمت یہ کہہ کر کی گئی کہ بحیثیت مسلمان ہمارے بچے کہاں اس نوعیت کے جنسی تعلق میں مبتلا ہوا کرتے ہیں؟ یا یہ تو بچوں اور بچیوں کو مزید شہ دینے والی بات ہے۔
سوچنے والی بات محض یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں بے شمار افراد اس انفیکشن کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟
جواب سننے کے لئے ہمارا منہ نہ کھلوائیے کہ گائناکالوجسٹ کے حمام میں سب کچھ نظر بھی آ جاتا ہے اور کافی رازوں سے پردہ بھی اٹھ جاتا ہے۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ ہے کیونکہ اس بیماری کے لئے متعدد جنسی ساتھیوں کا ہونا لازم ہے جو بیماری کو ایک سے دوسرے میں منتقل کرتے ہیں۔
کون کس کو اس بیماری میں مبتلا کرتا ہے اور کہاں سے یہ لے کر آتا ہے؟ کوایک طرف رکھ کر محض یہ جان لیجیے کہ کینسر کا عذاب صرف عورت کے حصے میں آتا ہے اور بریسٹ کینسر کے بعد سب سے زیادہ شرح سروکس کے کینسر ہی کی ہے۔
خواتین کے حصے میں آنے والے عذاب ویسے ہی کم نہیں سو ناگہانی سے نبٹنے کے لئے اپنی بیٹیوں کے لئے HPV ویکسین کا خیال برا نہیں!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر