عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ابھی ایف ٹن اسلام آباد کے ’معروف ہسپتال‘ کے آئی سی یو میں ابصار عالم سے ملاقات ہوئی ہے۔ سلیٹی رنگ کی ٹی شرٹ پر گولی کا نشان بہت واضح تھا۔ ایک ہاتھ میں کینولا کے ساتھ ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ گولی کے زخم پر پٹی باندھی جا چکی تھی۔ ہسپتال ایمرجنسی وارڈ کے باہر درجنوں صحافی پریشانی کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ کئی ٹی وی چینلز کے کیمرے لگ چکے تھے۔ اہم شخصیات کے آمد کی توقع میں پولیس کی تازہ دم اسکواڈ ہسپتال کے باہر پوزیشن لے چکی تھی۔ ہسپتال میں داخلے کی سخت ممانعت تھی۔ معروف ہسپتال کے ہیڈ آف ایمرجنسی ڈاکٹر بلال اور ڈاکٹر اسامہ تمام لوگوں کو باری باری بریفنگ دے رہے تھے۔ ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر وحید میر بھی اس موقعے پر پہنچے انھوں نے اپنی نگرانی میں ابصار کو ایمرجنسی سے آئی سی یو میں شفٹ کروایا۔
ڈاکٹر بلال کے مطابق گولی جسم کے آر پار ہو گئی تھی، خدشہ تھا کہ جگر کے کچھ حصے کو گولی نے نقصان پہنچایا ہے مگر ابصار عالم کی حالت اب خطرے سے باہر ہے، ان کو اگلے اڑتالیس گھنٹے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا جائے گا اس کے بعد ہی بتایا جا سکتا ہے کہ سرجری کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ گولی اگر جسم کے اندر رہ جاتی تو نقصان زیادہ ہو سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ شکر کریں کہ گولی جسم کے آر پار ہو گئی۔
میں ڈاکٹر صاحب کو کہہ نہیں سکا کہ اس ملک کے صحافی کس کس بات پر شکر ادا کریں کہ احمد نورانی کے سر پر چوٹ اتنی شدید نہیں لگی کہ بھیجا باہر آ جائے یا پھر اس بات پر شکر ادا کریں کہ مطیع اللہ جان کے دن دیہاڑے اغوا کی فوٹیج دستیاب ہو گئی ہے یا اس بات کا شکر ادا کریں کہ عمر چیمہ بہیمانہ تشدد کے بعد زندہ سلامت گھر واپس آ گئے اور اب اس بات کا شکر ادا کریں کہ گولی ابصار کے جسم کے آر پار ہو گئی ہے۔ ہم کس کس چیز کا شکر ادا کریں۔
روزہ کھولنے کے بعد کم لوگ ہی ٹی وی دیکھتے ہیں لیکن اتفاق سے ٹی وی لگایا تو جیو ٹی وی کے ٹکرز میں روح فرسا خبر پڑھی کی ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ خبر کے مطابق ابصار عالم ایف نائن پارک میں واک کر رہے تھے۔ شیخ رشید کا بیان بھی چل رہا تھا جس میں انھوں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور فوری تفتیش کا حکم دے دیا۔ اب تک سارے پاکستان کو پتہ چل چکا ہے کہ اس قسم کی تفتیش کے کیا نتائج نکلتے ہیں، کتنے مجرم پکڑے جاتے ہیں، کتنوں کو سزا ہوتی ہے۔
میرے گھر سے ہسپتال کا فاصلہ تقریباً چالیس منٹ کاہے۔ میں اور میری اہلیہ سارا رستہ دوستوں کو فون کر کے ابصار کی خیریت دریافت کرتے رہے چوں کہ افطار کا وقت تھا اس لیے بہت سے لوگوں کو اس حادثے کا علم نہیں تھا۔ جس سے بھی بات ہوئی وہ ہسپتال کی طرف بھاگا۔ ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر پارکنگ کی جگہ نہ تھی۔ دور گاڑی کھڑی کر جب ایمرجنسی کے دروازے کے پاس پہنچے تو اس وقت تک تمام ہی نامور صحافی وہاں موجود تھے۔ عمر چیمہ، وسیم عباسی، مطیع اللہ جان، خرم شہزاد، حامد میر، شہباز رانا اور بہت سے صحافی ابصار کے ساتھ یک جہتی کے لیے وہاں موجود تھے۔
ابصار کی اہلیہ اور بیٹا بھی وہاں موجود تھے۔ دونوں سب کو حوصلہ دے رہے تھے، خود حوصلہ دکھا رہے تھے۔ بھابی پریشان تھیں مگر پریشانی ظاہر نہیں کر رہی تھیں۔ پورے حوصلے سے سب کو واقعے کی تفصیلات بتا رہی تھیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی آئے اور ابصار کی خیریت دریافت کی۔ شنید ہے نواز شریف نے بھی فون کر کے احوال پوچھا، مریم نواز نے بھی ٹویٹ کی۔ ٹویٹر کا ٹاپ ٹرینڈ لمحوں میں ابصار عالم سے منسوب ہو گیا۔ ہزاروں لوگوں نے ابصار عالم کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔
معروف ہسپتال کے بہت شفیق ڈاکٹر بلال کے توسط سے ابصار عالم سے دو منٹ کی ملاقات کا موقع ملا۔ ابصار عالم کے چہرے پر تھکاوٹ ضرور تھی مگر وہ بالکل ہوش میں تھے۔ وہ بقائمی ہوش و حواس بتا رہے تھے کہ ان کے گھر کے پاس جو چھوٹا سا پارک ہے وہ حسب معمول وہاں واک کر رہے تھے، ہاتھ میں چھڑی تھی۔ ایک نامعلوم شخص چہرے پر ہاتھ رکھے ان کے پاس آیا، بہت قریب آ کر اس نے فائر کر دیا، گولی پیٹ میں لگی۔ پہلے تو ابصار کو صرف دھماکے کی آواز آئی اور پھر گولی کی تکلیف کا احساس ہوا۔ ابصار عالم اسی حالت میں چھڑی کی مدد سے اس شخص کی طرف بڑھے شلوار قمیص میں ملبوس یہ شخص فرار ہو گیا۔ اتنے میں محلے کے چند لوگ وہاں آئے ابصار کے گھر اطلاع ہوئی اور جلد ہی قریبی ہسپتال میں داخل کروا دیا۔
یہ قصہ سنا کر ابصار عالم اپنے روایتی انداز میں وہی باتیں کرنے لگے جن کی اس سماج میں ممانعت ہے۔ ان کے چہرے پر نہ کوئی خوف تھا، نہ دہشت۔ بس امید تھی، حوصلہ تھا کہ یہ قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی، یہ لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ وہ پورے ہوش و حواس میں پوری شدت سے گفتگو کر رہے تھے، نہ انھیں درد کا احساس تھا، نہ تکلیف کی پرواہ تھی۔ زخم زخم اس کیفیت میں بھی وہ اپنے نظریے پر ڈٹے ہوئے تھے۔
ابصار عالم ویسے تو ہوش میں تھے مگر حقیقت میں جب سے ابصار کو ہم جانتے ہیں، وہ کبھی ہوش میں نہیں رہے۔ اس ملک میں جو لوگ ہوش میں ہوتے ہیں وہ طاقتوروں سے ڈرتے ہیں، انھیں ذاتی نقصان کی پرواہ ہوتی ہے، وہ سر جھکا کر بات کرتے ہیں، وہ طاقتوروں کو چیلنج نہیں کرتے۔ ابصار عالم کا سارا کیرئیر اس کے بر خلاف گزرا ہے۔ جب صحافی تھے تو بڑے بڑوں سے بھڑ جانا اپنی شان سمجھتے تھے، جب اینکر تھے تو ایک سوال میں فسطائیت کے سارے نظریے کو ڈھیر کر دیتے تھے، جب چیئرمین پیمرا بنے تو انجانی کالوں پر سر تسلیم خم کر لینے کے بجائے ان کو سرعام بے نقاب کیا۔ جب بے روزگار تھے تب بھی اپنے مقصد پر ڈٹے رہے۔
ہمارے ہاں ایسے لوگ ہوش میں نہیں ہوتے، ہوش میں رہنے والے تو مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں، ذاتی فائدے دیکھتے ہیں، سر جھکا کر چلتے ہیں۔ ابصار نے ساری عمر ایسا نہیں کیا اور زندگی کے ہر موڑ پر اس کا خمیازہ بھی بھگتا مگر اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔
یہ کیسا دور آ گیا ہے کہ جب ڈرانے والے ہر ممکن طریقے سے لوگوں کو ڈراتے ہیں مگر لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے۔ زبان بندی کا حکم ہوتا ہے مگر لوگ چپ نہیں ہوتے۔ لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ان بزدل لوگوں کے لیے جو ابصار کے صرف ٹویٹس سے ڈرتے ہیں، جو سچ سے خوفزدہ رہتے ہیں، جو حق بات سن کر کانپنے لگتے ہیں۔ اس سماج میں اب تبدیلی آ گئی ہے، لوگ نڈر ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی اس شجاعت میں ابصار عالم جیسے لوگوں کا بہت بڑا حصہ ہے جو اس سماج کے رسم و رواج کے مطابق ہوش میں نہیں رہتے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر