حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر نویس اپنے پڑھنے والوں کیلئے لکھتا ہے، پڑھنے والے ہی اصل منصف ہیں۔ البتہ ذاتی اطمینان یہ ہے کہ دستیاب معلومات پر حرف جوڑتا اور لکھتا ہوں۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی کیلئے نرم گوشہ ہے، جی بالکل ہے لیکن ان کا تنخواہ دار ہوں نہ اندھا،مقلد اس نرم گوشے کی ایک نئی نہیں درجنوں وجوہات ہیں،
لازمی نہیں آپ ان سے متفق ہوں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلا کالم لگ بھگ چالیس برس قبل لکھا تھا، لکھنا اس سے سات برس قبل شروع کیا تھا۔ وقت بہت تیزی سے بیت گیا۔
صدرایوب کے دور میں شعور کی پہلی سیڑھی چڑھے تھے، اب صدر عارف علوی ہیں اور وزیراعظم عمران خان تین مارشل لاء اور چوتھی جرنیلی، جمہوریت (مشرف دور) کھلی آنکھوں سے دیکھے بھگتے۔
ایک ہم نے ہی کیا دوسرے لوگوں نے بھی، بھٹو کا دوربھی دیکھا محترمہ بینظیر کے دو اور نوازشریف کے تین ادوار، درمیان میں محترمہ کی شہادت کے بعد پی پی پی کا دور جب زرداری صدرتھے اور جناب گیلانی وزیراعظم تھے دیکھے
گیلانی ایک عدالتی فیصلے پر نکالئے گئے تو چار اور سے آوازیں بلند ہوئیں ایک سزایافتہ وزیراعظم لمحہ بھر کی تاخیر کے بغیر مستعفی ہو،
ان آوازوں میں بلند ترین (جہانگیرترین نہ سمجھ لیجئے گا) آواز جناب نواز شریف کی تھی، پھر جب نوازشریف کو سزا ہوئی اسی سپریم کورٹ سے تو انہوں نے کہا میرے جج بائیس کروڑ عوام ہیں۔
گیلانی غالباً کوہ کاف سے تشریف لائے تھے۔
بنتی بکھرتی حکومتوں، مسلط ہوتے مارشل لاوں، وقفے وقفے سے تشریف لانے والی نگران حکومتوں کے ادوار دیکھے بھالے۔
صحافت کے کوچہ میں مہربان اُستاد ملے اور سفرحیات میں بہترین دوست، اس لئے ہمیشہ کہا لکھا اعتراف کیا، قلم مزدور آج جو کچھ بھی ہے اپنے اساتذہ اور دوستوں کی وجہ سے ہے۔
جب سے کالم لکھ رہا ہوں لوگ اختلاف بھی کرتے ہیں، شائستہ انداز میں تنقید بھی، گاہے لوگ منہ بھر کے گالیاں بھی دیتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے حامی ان پر تنقید کرنے والوں کو ملک دشمن کہتے تھے۔ جماعت اسلامی اپنے ناقدین کو سیدھا جہنمی کہتی ہے۔ ویسے تقریباً ساری مذہبی جماعتوں کا یہی حال ہے۔
نون لیگ پر تنقید کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے پالتوں ہیں، پیپلزپارٹی اور اے این پی کے سنجیدہ لوگ تنقید کا برا نہیں مناتے البتہ اب ان کے بعض حامی بھی مذہبی جماعتوں والا رویہ اپنالیتے ہیں۔
ہماری تبدیلی سرکار کے تو کیا کہنے، ان پر تنقید کیجئے ان کے حامی آپ اور آپ کے خاندان کی ایسی ایسی خوبیاں ”بیان” کریں گے جو خود آپ نہیں جانتے،
تمہید طویل ہوگئی۔
کچھ عرصہ قبل ایک مذہبی ادارے میں چھ ماہ سے تنخواہیں نہ دئیے جانے، ادارے کے ہی ایک اُستاد سے ادارے کے ہسپتال میں علاج معالجہ کا ظالمانہ بل وصول کرنے اور چند دیگر معاملات پر ایک تحریر لکھی، تب سے اب تک اس ادارے کے طلباء اور مالک کے عقیدت مند مہربانی فرماتے رہتے ہیں۔
ایک عقیدت مند نے ضد انقلاب قرار دیاتو
عرض کیا انقلاب آج کل کس بھاؤ ہے؟ ناراض ہوگئے۔
سچ پوچھیں تو اس ملک میں جمہوری، سوشلسٹ اور اسلامی تینوں قسم کے انقلاب ممکن ہی نہیں۔
یہ سرزمین انقلاب یا انقلابیوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی، البتہ بنام انقلاب آپ کاروبار کر سکتے ہیں اور یہ مندے کے دھندے بالکل نہیں۔
درجن ڈیڑھ درجن کیا میں تینوں اقسام کے سینکڑوں انقلابیوں کو جانتا ہوں، جن کی فقیری خوشحالی میں انقلابی چورن فروخت کرنے سے بدلی۔
دھندہ کوئی بھی بُرا نہیں ہوتا، دھندے ہوتے ہی کرنے کیلئے ہیں، جس کو جو راس آئے وہ وہی کرتا ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ اب ان برانڈ کے انقلابیوں میں سول سپرمیسی انقلاب والوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ بھی ویسے ہی ہیں ذرا تنقید کر کے دیکھئے تو لگ پتہ جائے گا۔
برداشت نام کی کوئی چیز نہیں، طعنے دوسروں کو مارتے پھرتے ہیں۔
جب سے سول سپرمیسی والوں اور جیالوں میں تازہ ان بن ہوئی ہے دونوں ”بہت مصروف” ہیں۔ اچھا ہے مصروف رہیں لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ بھی تو چاہئے۔
ہمارے دوست اُستاد مشتاق احمد اور ایڈوکیٹ صفدر علی ایک شہر کے ہیں، اتفاق سے دونوں ہمارے مہربان دوستوں میں شامل ہیں۔ اُستاد مشتاق احمد سول سپرمیسی کی محبت میں گرفتار ہیں جبکہ وکیل صاحب سکہ بند جیالے، دونوں کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے لیکن شکر ہے کہ بندوقیں نہیں نکل آتیں۔
کبھی کبھی میرے والد صاحب کی جماعت والے صالحین مجھ سے شکوہ ضرور کرتے ہیں، آپ اپنے والد کی جماعت کیخلاف تلوار بدست کیوں رہتے ہیں؟
مسکرا کر عرض کرتا ہوں ہمیں بھی برداشت کر لیجئے، آپ کا کیا جاتا ہے۔
انسان ہوں سب سے زیادہ دکھی دو باتوں پر ہوتا ہوں،
اولاً اس وقت جب کوئی تحریر کے جواب میں گالی دے اور ثانیاً اس وقت جب کوئی کسی کالم پر دلیل سے اپنی رائے دینے کی بجائے تحریر نویس کے عقیدے کو زیربحث لے آئے
گزشتہ شب ایک ایسے ہی ناقد سے سوال کیا
کیا آپ نے اپنے سیاسی نظریات کے خلاف لکھنے کسی دوسرے کالم نگار سے بھی کبھی اس کا عقیدہ پوچھا یا اس پر حرف گیری کی ؟ ان کی خاموشی میں میرے لیے جواب موجود تھا ، ہم کتنے بدقسمت لوگ ہیں سماج میں اپنے ساتھ بستے کسی بھی دوسرے شخص سے معاملہ کرنے یا اس کے بارے میں رائے دیتے وقت اس کا عقیدہ درمیان میں لے آتے ہیں
47 برس قبل جب قلم مزدوری شروع کی تھی تو اساتذہ نے ایک بات سمجھائی
” عقیدہ فرد کا ذاتی معاملہ ہے ، تمہاری تحریر یا رائے فرد کے سیاسی موقف کے حوالے سے ہونی چاہئے ناکہ اس کے عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر "
کبھی کبھی دکھی دل کے ساتھ سوچتا ہوں اب ہمارے درمیان ویسے اُجلے لوگ کیوں نہیں پائے جاتے ، سوچتا رہتا ہوں جواب نہیں ملتا ، پھر کوئی کتاب اٹھا کر ورق گردانی شروع کردیتا ہوں ، شکر ہے میرے پاس پڑھنے کیلئے کتابیں ہیں اور پڑھنے کا وقت بھی ورنہ اس حبس زدہ بنجر سماج میں تو گُھٹ گُھٹ کر مر گئے ہوتے
بلاشبہ معاشرہ ایسا حبس زدہ ہوچکا یے کہ آپ اختلاف رائے اور اظہار اختلاف رائے کا مطلب ہے سماج دشمن قرار پانا، اور مخالف کو لائیسنس دینا کہ جو چاہیں بشمول عقیدہ و نجی زندگی سب مشق ستم کے لیے تلوار کی زد میں ہوگا.