رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کروڑ سے میرے 35 سال پرانے کلاس فیلو شفیق غزالی کی کال تھی۔
نام تو شفیق تھا لیکن پھر ایک ”قلبی واردات‘‘ نے اسے غزالی بھی بنا دیا۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ کال بھی ویڈیو تھی۔ دوسری طرف اندھیرا تھا۔ شفیق نے فوراً لائٹ جلائی۔
میں نے کہا: غزالی یہ کیا تماشہ ہے؟ رات گیارہ بجے کال سمجھ آتی ہے لیکن کمرے کی لائٹ آف کرکے ویڈیو کال کرنے کی تُک سمجھ نہیں آئی۔
میں نے غور سے دیکھا تو غزالی نے سن گلاسز بھی لگائے ہوئے تھے۔ اس کا حلیہ دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ بولا: سونے لگا تھا‘ سوچا تمہیں کال ملائوں‘ میرا خیال تھا تم کال نہیں آٹھائو گے لہٰذا سو جائوں گا؛ چنانچہ بتی پہلے سے بجھا دی تھی۔ سن گلاسز پہن لیے تھے کہ چلیں اگرکال اٹھا لی تو ذرا تم پر شخصیت کا رعب پڑے گا‘ اب تم نے کال اٹھا لی تو مجبوراً لائٹ جلانا پڑی۔
میرا واقعی ہاسا نکل گیا۔ میں نے کہا: غزالی دنیا بدل گئی‘ تُو نہ بدلا۔ پینتیس سال بعد بھی میرا جگر تو ویسے کا ویسے ہے۔
1985 کا سال تھا۔ سلیم بھائی نے کوٹ سلطان ہائی سکول سے‘ جو گھر سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا‘ مڈل کے بعد اٹھا کر کروڑ ہائی سکول داخلہ کرا دیا جو ہمارے گھر سے پینتالیس کلومیٹر دور تھا اور مجھے پہلے لیہ پہنچنا ہوتا تھا اور وہاں سے ویگن لے کر کروڑ‘ جو لیہ سے تیس کلومیٹر دور ہے۔ اماں مجھے چھ بجے اٹھاتیں تو ہی سکول وقت پر پہنچ پاتا۔ صبح سویرے کوئی بس پکڑ کر لیہ پہنچتا یا اکثر سلیم بھائی کے سکوٹر پر ان کے ساتھ لیہ تک جاتا اور پھر وہاں سے دونوں بھائی ویگن لیتے اور کروڑ پہنچ پاتے جہاں ان کی بینک میں نوکری تھی۔ آپ پوچھیں گے اتنی زحمت کیوں ‘ جب گھر کے قریب ہائی سکول تھا؟
دراصل سلیم بھائی کا تبادلہ کروڑ ہوا تو انہیں علم ہوا کروڑ سکول میں تعلیم کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ وہاں کے ہیڈ ماسٹر حسن راں صاحب نے ایک اعلیٰ تعلیمی نظام سیٹ کر دیا تھا۔ بہت قابل استاد تھے وہاں‘ لہٰذا وہ اپنے بھائی کو ”اعلیٰ تعلیم‘‘ کیلئے کروڑ لے گئے۔ بلاشبہ حسن راں صاحب ایک باکمال استاد اور ایڈمنسٹریٹر تھے۔ وہ اکثر کلاسوں کا دورہ کرتے رہتے اور جس دن کوئی استاد چھٹی پر ہوتا یا لیٹ ہوتا تو اس کی کلاس حسن راں صاحب خود پڑھاتے۔ ایک خوبصورت استاد۔ میں خود محسوس کرتا ہوں کہ وہ دو سال سفر کے حساب سے میرے لیے بہت مشکل تھے کہ سکول سے چھٹی بعد پھر مجھے ایک طویل سفر طے کرکے گھر واپس جاتے جاتے شام ہو چکی ہوتی تھی اور کھانا کھا کر فوراً ہوم ورک کرکے سونا پڑتا تھا تاکہ اگلی صبح وقت پر کلاس پہنچ سکوں‘ لیکن انہی دو سالوں نے میرے تعلیمی کیریئر میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
جب پہلے دن ہیڈ ماسٹر حسن راں صاحب نے مجھے اس کلاس میں بٹھایا جس کے چوہدری حسن صاحب سربراہ تھے تو سب لڑکے حیران ہوئے کہ یہ کون ہے جسے ہیڈ ماسٹر خود چھوڑنے آیا ہے۔ حسن راں صاحب نے ہی سلیم بھائی کو قائل کیا تھا کہ بھائی کو اس سکول لائو۔ نویں جماعت کے وہ سب لڑکے ایک دوسرے کو جانتے تھے کیونکہ وہ اسی سکول میں پروموٹ ہو کر اس کلاس میں آئے تھے۔ میرے علاوہ ایک اور لڑکا طارق بخاری تھا جس کے والد صاحب ٹرانسفر ہو کر فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں کروڑ آ لگے تھے اور وہ بھی طارق کو ساتھ لائے تھے۔ طارق بخاری کلاس کا قابل لڑکا تھا۔ ابھی پچھلے دنوں وہ پنجاب کے ایک ضلع میں ڈپٹی کمشنر تعینات تھا۔ خیر میں اکیلا بیٹھا تھا کیونکہ سب اجنبی تھے۔ وہ لڑکا جس نے میری اجنبیت توڑی وہ شفیق غزالی تھا۔ میں خاموش‘ کہیں پیچھے بینچ پر بیٹھا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور پوچھا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے نازل ہوا ہوں؟ میں نے اپنا تھوڑا سا بتایا تو وہ اپنا بیگ فرنٹ قطار سے اٹھا کر لایا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر اگلے دو سال‘ میں اور شفیق غزالی ایک ہی بینچ پر بیٹھے۔ شفیق کے والد پوسٹ ماسٹر تھے۔ اسے اور کوئی سمجھ نہ آتی کہ مجھ سے کیسے دوستی پکی کرے تو وہ ڈاک خانے کے بڑے رجسٹر اٹھا لاتا‘ جس پر ہم ہوم ورک کرتے۔
اب وہی شفیق مجھے لائٹس آف کرکے ویڈیو کال کررہا تھا۔ میں نے کہا: شفیق تمہیں پتا ہے‘ میرے اندر سے ایک تکلیف آج تک نہیں جاتی۔ تمہیں ایک دن ہمارے اردو کے بہترین استاد ارشاد سرگانی صاحب نے کسی معمولی بات پر مارا تھا۔ اس بات کو پینتیس برس گزر گئے ہیں۔ تمہاری شکایت ایک اور ہمارے کلاس فیلو نے کردی تھی۔ ارشاد سرگانی صاحب عموماً ایک مختصر لیکن پُراثر چماٹ سے کام چلا لیتے تھے لیکن وہ تشدد نہیں کرتے تھے‘ لیکن پتا نہیں اس دن کیا ہوا کہ سرگانی صاحب بہت غصہ کرگئے۔ وہ گرائونڈ میں کلاس لیتے تھے۔ انہوں نے ڈنڈا منگوایا۔ پہلے شفیق کے ہاتھوں پر مارا۔ دل نہ بھرا تو اسے کان پکڑا کر پشت پر مارا۔ اسے کہتے رہے کہ معافی مانگو۔ شفیق چپ چاپ مار کھاتا رہا۔
میں نے شفیق کو کہا یار پینتیس برس گزر گئے ہیں لیکن وہ منظر میری آنکھوں سے نہیں جاتا۔ مجھے لگتا ہے وہ ڈنڈے تمہیں نہیں میرے ہاتھ پر برس رہے ہیں۔ شفیق ہنس پڑا اور بولا تمہیں پینتیس برس بعد بھی وہ ڈنڈے یاد ہیں۔ پھر وہ اچانک بولا: یار وہ تمہارا ملتان کا کلاس فیلو اور دوست عمران گیلانی ہمارا زونل چیف لگ گیا ہے۔ شفیق غزالی یوٹیلٹی سٹورز میں جاب کرتا ہے۔ عمران گیلانی ایک اور خوبصورت کردار ہے اور دوست‘ جو ملتان یونیورسٹی میں میرا کلاس فیلو تھا۔ گورا چٹا رنگ‘ خوبصورت تراشی گئی مونچھیں‘ آنکھوں پر بہترین عینک چڑھائے اعلیٰ لباس میں ملبوس اپنی گاڑی سے جب عمران گیلانی یونیورسٹی میں اترتا تو اس کی اپنی ٹور ہوتی تھی۔ جیسے شفیق غزالی سے کروڑ سکول میں دوستی ہوگئی تھی ویسے ہی عمران گیلانی سے ملتان کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں دوستی ہوگئی تھی۔ گیلانی کی حسِ مزاح کمال کی تھی اور مجھے اس کے لطیفے، قہقہے اور گپیں پسند تھیں۔ جب ہم دوست مختار پارس، محمود بھٹی، شعیب بٹھل، فہیم عامر، ریاض شاہد پینیاں، سلمان اور عمران گیلانی بیٹھتے تو کمال محفل جمتی۔
دو تین برس قبل مجھے اپنے سکول کروڑ کی اتنی یاد آئی کہ اسلام آباد سے اپنے گائوں گیا تو واپسی پر گاڑی کا رخ کروڑ کی طرف کر لیا کہ وہاں سے پھر فتح پور اور ایم ایم روڈ لے لوں گا۔ اتوار کا دن تھا۔ سکول بند تھا تو اس کی دیوار کے قریب سے گزرتی سڑک پر سے دھیرے دھیرے گاڑی چلاتا سکول کی دیواروں کو اداس نظروں سے دیکھتا چلا گیا۔ اس گیٹ پر نظر پڑی جہاں سے سکول میں داخل ہوتے تھے۔ ایک لمحے میں سب کچھ آنکھوں میں سے گزر گیا۔ لمحے کتنی تیزی سے گزر گئے تھے۔ دل کیا‘ گاڑی روک کر سکول کی ایک ایک دیوار کو پرانے دوستوں کی طرح گلے سے لگائوں اور لگائے رکھوں۔ ہیڈ ماسٹر حسن راں صاحب یاد آئے تو چوہدری حسن صاحب بھی ابھرے، ایک ایک کرکے تمام دوستوں اور استادوں کے چہرے ابھرتے اور ڈوبتے رہے۔ کیسے اعلیٰ اساتذہ ہمیں پڑھا کر اس دنیا سے گزر گئے تھے۔
مجھے ویڈیو فون کال پر خاموش دیکھ کر شفیق بولا: یار ذرا اپنے دوست عمران گیلانی کو تو فون کر دینا۔ وہ ہمارا اب باس ہے۔ لیہ آئے ہوئے تھے۔ تمہارا پوچھ رہے تھے۔ میں نے تمہارا نام لے کر دو چار بڑھکیں مار دی تھیں۔
میں نے پوچھا: عمران گیلانی کو کیا کہنا ہے؟
شفیق بولا: کہنا کیا ہے بس میرا بتا دینا۔ کچھ باس پر ٹور بن جائے گی۔ گیلانی صاحب کو پتا چلا کہ تمہارا سکول‘ کلاس فیلو ہوں تو بڑی عزت دی۔
تقدیر کے بھی عجیب کرتب تھے۔ میرا یونیورسٹی کلاس فیلو، میرے سکول کلاس فیلو کا باس نکل آیا تھا۔ عمران گیلانی سے ملاقات ہوئے برسوں گزر گئے تھے لیکن پھر بھی شفیق غزالی سے میرا حوالہ سن کر لاج رکھ لی۔ کلاس فیلوز دوستوں کے رشتے بھی کتنے خوبصورت ہوتے ہیں۔ وقت کی بے رحم دھول بھی ان دوستیوں کو زنگ نہیں لگا سکی تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر