عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبریں میڈیا گروپ کے بانی ضیاء شاہد کا انتقال ہو گیا اور اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو صحافت میں
اپنے طرز کے ایک ایسے صحافی کا باب ختم ہوا ہے جس کو کہیں تو داد دینے کو من کرتا تھا اور اکثر اُس
کی مذمت کرنے کو دل کرتا تھا۔
ضیا شاہد پر لکھ کر ریکارڈ خراب نہیں کیا
میں روزنامہ خبریں ملتان میں 2001ء سے 2015ء تک کالم نگاری کی لیکن اس سارے عرصے کے دوران میں
کبھی ضیاء شاہد سے نہیں ملا اور نہ ہی میں نے ضیاء شاہد پر کچھ لکھا- کیونکہ میں اُس کی ستائش میں کچھ
بھی لکھ کر اپنا ریکارڈ خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔
ہاں اُس کا ملتان میں قائم مقام خلیفہ تھا جس کا میں اس اعتبار سے کل بھی شُکر گزار تھا اور آج بھی ہوں کہ اُس نے پندرہ سالوں میں میرے کالموں سے پیدا ہونے والے دباؤ کو برداشت کیا اور میرا کالم وہاں چھپتا رہا لیکن پھر وہاں محکمہ زراعت وغیرہ کے بارے میں کچھ لکھنا ممکن نہ رہا تو پھر مجھے وہ اخبار مجبوراً چھوڑنا پڑا لیکن میرا اندازا “چھوٹے ضیاء شاہد” بارے بہت ہی غلط تھا، کافی دیر بعد اصلیت کُھل کر سامنے آئی، زیادہ دیر اس غلط فہمی کا سبب میرے ایک دوست تھے جو اپنی مجبوریوں کے تحت اُس کا کلمہ پڑھنے پہ مجبور تھے لیکن میں یہ سمجھتا رہا کہ “جتنے” بے باک میرے دوست ہیں اتنا کم سے کم وہ بھی ہوگا لیکن اُن کی جرات و بے باکی ایک واقعے میں ہوا ہوگئی اور مجھے کم از کم یہ اندازہ ہوگیا۔
سنپاں دے پُتر کدے متر نئیں ہوندے
بھانویں چُلیاں دود پلائیے ہو
پاکستان میں اعزازی نامہ نگاری کا منظم دھندا
پاکستان میں اعزازی نامہ نگاری کے ساتھ جڑی سیکیورٹی اور اعزازی نامہ نگار کے لیے اخبار کو سال میں چار مرتبہ خصوصی بزنس اور سالانہ متعین ہدف کا پورا کرنا، اسے ایک منظم دھندا بنانے اور اس دھندے کی اپنی ہی اخلاقیات کو جنم دینے کا سہرا ضیاء شاہد کو جاتا ہے۔
اُس نے سرکاری محکموں کے کرپٹ افسران، کرپٹ ٹھیکے دار، تاجر اور صنعت کاروں کی لوٹ مار میں، نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز ہوں، پیر ہوں، ملاں ہوں، گلی محلے کے چھوٹے سیاست دان سے لے کر بڑے سیاست دان تک سب کے مال میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کی سائنس کو بڑھایا۔
سیاسی و سماجی و مذہبی خدمات کے نام پہ شہرت کے متمنی لوگوں کے بیانات، انٹرویو، اُن کی پروجیکشن کی خبریں کمرشل کردیں اور صفحہ اول سے لے کر بیک پیج تک سب پہ کمرشل خبر کے ریٹ مختص کردیے گئے۔
ضیاء شاہد کا دماغ تھا جس نے پہلی بار جی ایم پلس آر ای کے عہدے ایسے بیچے جیسے تھانے بکتے ہوں ملتان اسٹیشن سب سے مہنگا بکتا رہا، یہاں پہ اُس نے جن آر ای کو تعینات رکھا وہ ایک دن آیا خود اس کھیل کے ماسٹر بنے ضیاء شاہد اور اُن کے بیٹے نے اُن دونوں کو کمال مہارت سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا اور دونوں سے جان چھڑالی۔
ضیاء شاہد ایڈیٹر سے لیکر چھوٹے سے قصبے میں اعزازی نامہ نگار تک چھوٹے چھوٹے ضیاء شاہد پیدا کرگیا ہے۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ ضیاء شاہد نے صحافت کو جن برائیوں سے لتھڑا وہ برائیاں پہلے سے موجود تھیں۔
صحافت کے نام پہ مال کمانا اور سماجی طور پہ ایک پریشر گروپ بن جانا اس سے کون سا میڈیا گروپ اور اُس کے مالکان بری کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان میں تمام اخباری مالکان نیوز پرنٹس بلیک مارکیٹ میں بیچ کر اُس زمانے میں لاکھوں کماتے رہے جب لاکھ کا مطلب ایک کروڑ تھا۔
یہ سرکاری اشتہارات کے نام پہ یا کسی سرمایہ دار یا جاگیردار سیاست دان سے پیسے اور مراعات لیکر اپنے اخبارات اُس کی مدح سرائی اور اُس کے حریفوں کی بدترین دشمنی کے لیے مختص کرتے رہے ہیں۔
باقی رنڈی بازی اور شریف عورتوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر اُن کی عزتوں کا نیلام، اغلام بازی یہ سب بیماریاں ہمیں اور جگہوں پہ بھی نظر آجائیں گی۔
ٹی وی چینلز نے نمائندوں سے سیکیورٹی کے نام پر 5 لاکھ روپے تک لے رکھے ہیں
آج پاکستان میں 99 فیصد ٹی وی چینلز کے شہروں اور قصبوں میں رپورٹر ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک سیکیورٹی کے نام پہ لے کر رکھے گئے ہیں۔ ان کے انچارج نمائندگان کا کام اپنے ٹی وی چینل مالک کو ہر ماہ ایک متعین مقدار میں “بھتہ” دینا ہے جو “بزنس ٹارگٹ” کہلاتا ہے۔ ٹی وی چینلز کا او ایس آر اُس ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز افیئر تک کو فارغ کراسکتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں پورا سٹرکچر وہی ہے جو خبریں اخبار کا طرہ امتیاز قرار دیا جاتا تھا۔
ضیا شاہد ہر اخبار اور ٹی وی چینلز میں مل جائیں گے
لاہور، ملتان، فیصل آباد سمیت پاکستان کے وہ تمام شہر جہاں سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ہیڈ اور سب ہیڈ آفسز ہیں وہاں پہ درجنوں ضیاء شاہد ہمیں مل جائیں گے۔
عام آدمی کا واسطہ اعزازی نامہ نگار سے پڑتا ہے تو وہ اُسے ہی پیٹھ پیچھے بُرا بھلا کہتا ہے لیکن اُس کو کیا پتا کہ اُسے جس بَلا کا سامنا ہے اُسے کس عفریت نے بھیج رکھا ہے-
صحافت برائے مال کی قدر کو گالیاں نکالنے والے انتہائی نامور اینکر پرسن، تجزیہ نگار، صحافی، مدیر، کالم نگار خود ایسی “وارداتیں” ڈالتے ہیں کہ بندہ ششدر رہ جاتا ہے۔
اس لیے میری نظر میں ضیاء شاید صحافت کو دلالی میں بدلنے والا پہلا فرد نہ تھا، ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے اس دلالی پہ جن دلالوں کا قبضہ تھا اُس قبضے کے ہوتے ہوئے اپنی دلالی کی صحافتی دکان نہ صرف کھولی بلکہ کامیابی سے چلائی اور اس دلالی میں ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے کہ اُسے طعنے دینے والوں نے اُس کا اسٹائل اپنالیا۔
نوائے وقت سمیت کئی چینلز ٹھیکے پر چل رہے ہیں۔
آج نوائے وقت میڈیا گروپ نے ملتان اسٹیشن اُسی طرز پہ ٹھیکے پہ دیا ہے جیسے ضیاء شاہد دیا کرتا تھا۔
دنیا نیوز، 92نیوز سمیت کئی چینلز اور اخبارات کے ملتان بیورو آفسز، ریذیڈنٹ دفاتر اٌس طرح کی دلالی کے طریقے سے چل رہے ہیں جس کے لیے ضیاء شاہد کو گالیاں دی جاتی تھیں اور دی جارہی ہیں-
ضیاء شاہد نے لبرٹی پیپرز لمیٹڈ کمپنی کے نام سے جو میڈیا گروپ متعارف کرایا وہ پہلے دن سے اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے طاقتور مشینری کے ساتھ وفادار رہا۔ اُس کے کہنے پہ اُس نے سیاست دانوں کی امیج بلڈنگ کی اور اُن کے کہنے پہ کردار کشی کی اور اس بات کو اس نے مانا بھی، اُس نے کبھی اپنے معاصر میڈیا مالکان اور نامور صحافیوں کی طرح خود کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بناکر نہیں دکھایا جبکہ اُن اینٹی اسٹبلشمنٹ جوکروں کا حال یہ تھا کہ وہ کبھی اِس یا اُس کے دلال ہوجاتے ہیں وہ کم از کم ایک کا ہی پیش کار رہا…..
اُس کے صحافتی دنیا کے تجربے سے فائدہ اٹھانے والے جنھوں نے ضیاء شاہد سے ہی وہ سارے گُر سیکھے ہیں، میں جب اُن چھوٹے ضیاء شاہدین کی اٌن لوگوں سے “دوستیاں” دیکھتا ہوں جو بڑے کے خلاف بولتے ہیں تو میرے ذہن میں “گلگوں سے پرہیز” والی حکایت یاد آجاتی ہے-
ضیاء شاہد اور اُس کے بنائے ضیاء شاہدین نے ایک کام یہ بھی کیا کہ بہت سارے لوگوں کو اخبار کے ادارتی صفحے پہ راستا دیا جو شاید بہت مشکل سے اُس صفحے پہ لکھ پاتے، سوشل میڈیا کے دور میں یہ اتنی بڑی بات معلوم نہیں ہوتی لیکن سوشل میڈیا کی مقبولیت سے پہلے یہ بڑی بات تھی۔
ملتان اسٹیشن سب سے ضیا شاہد نے متعارف کرایا
ملتان اسٹیشن کو بزنس پوائنٹ آف ویو سے ایک بہت بڑے موقع کے طور پہ بھی خبریں میڈیا گروپ نے متعارف کرایا اور اس کے نتیجے میں سارے بڑے اردو اخبارات اس اسٹیشن سے نکلنے لگے لیکن خبریں ملتان آج بھی دیگر اخبارات سے زیادہ سرکولیشن رکھنے والا اخبار ہے اور اس کا بزنس آج بھی پورے خبریں میڈیا گروپ کو سنبھالے ہوئے ہے۔
ضیاء شاہد کرائم رپورٹنگ سے لے کے ایڈیٹنگ تک اور انشاء پردازی میں ماہر شخص تھا اور وہ پھر اخبار کے جتنے شعبے تھے سب میں اپنے آپ کو موجود دکھاسکتا تھا۔ وہ اقدار کی سطح پہ جتنا گِرا ہوا تھا رپورٹنگ، فیچر نگاری، سیاسی تجزیہ نگاری کے کرافٹ کا اُتنا ہی بڑا ماہر تھا۔
وہ اخباری صنعت کی رگ رگ سے واقف تھا، وہ بڑے اخباری مالکان کے کارٹیل میں ایک دن میں داخل نہیں ہوا۔ وہ جنگ میڈیا گروپ، ڈان میڈیا گروپ اور نوائے وقت میڈیا گروپ جیسے بڑے مافیاز کا دُم چھلا بننے کی بجائے خود ایک مافیا یا گاڈ فادر کی شکل میں آنا چاہتا تھا، وہ اے پی این ایس اور سی پی این ای سے باہر بھی رہا لیکن آخر میں اُسے شامل کرنا پڑا۔ اُس کے اندر نیک روح اور بدروح دونوں جمع تھیں اگرچہ بد روح کا غلبہ تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اٌسے سنگل آؤٹ کرکے اُس کے مرنے پہ اُس کو اپنے طرز کا واحد “بُرا صحافی” کہنا اُس سے زیادتی ہے۔
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی زاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر