حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمن انتہائی قابل احترام ہیں۔ ان کے ذہنی انتشار کے باوجود میری اب بھی یہی رائے ہے کہ وہ دستیاب دیوبندی مولانا صاحبان میں سے سب سے زیادہ صاحب مطالعہ شخص ہیں۔
پچھلی تین دہائیوں میں بطور اخبار نویس ان کے چار پانچ انٹرویو کئے۔ متعدد مواقع پر ان سے مکالمے کی نشست جمی۔ لاہور میں حافظ ریاض درانی اور پشاور میں حاجی غلام علی کے گھر (حاجی صاحب اب ان کے سمدھی ہیں) ایک دو بار لاہور میں غریب خانے پر بھی تشریف لائے۔
ہمیشہ انہوں نے تحفظات اور شکایات کے ساتھ کڑوے کسیلے سوالات تحمل کے ساتھ سنے اور دلیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا۔ ان سے یاداللہ بہت پرانی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کی حمایت اور مخالفت پر ان کی جماعت تقسیم ہوئی۔ مرحوم مولانا سمیع الحق اپنا دھڑا لے کر الگ ہوگئے اور کھل کر مارشل لاء کی حمایت کی۔
مولانا نے اپنے مرحوم والد کی اتحادی سیاست کے سمجھوتے کا بھرم رکھا اور مارشل لاء مخالف اتحاد ایم آر ڈی کا حصہ رہے اس کی قیمت بھی چکائی، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
1988ء کے انتخابات کے موقع پر ایم آر ڈی کو انتخابی اتحاد نہ بنایا جاسکا۔ مولانا پیپلزپارٹی سے ناراض ہوگئے۔ انتخابی نتائج کے بعد مرحوم جنرل حمید گل آئی جے آئی کی وفاق میں حکومت بنوانے کی کوششیں کرتے رہے پھر ناکامی ہوئی اور قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے محترمہ بینظیر بھٹو کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔
یہ حکومت سازی چند شرائط کے ساتھ ہوئی۔ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان رہے اور خزانہ کی وزارت جعفری صاحب کے پاس رہی۔
صدارتی انتخابات کے مرحلہ میں حکومت نے غلام اسحق خان کو اپنا امیدوار بنالیا۔ اپوزیشن نے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کو صدارتی امیدوار بنایا۔ اسحق خان جیت گئے۔ انہوں نے 19ماہ بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات لگاکر برطرف کردیا۔
ان 19ماہ کے دوران عورت کی حکمرانی غیراسلامی ہے، کی فکر اچھالنے والے مولانا فضل الرحمن تھے۔ اسی عرصہ میں سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ پر ہنگامہ آرائی ہوئی اس کی قیادت مولانا اور نوابزادہ صاحب نے کی۔ مرحوم کوثر نیازی بھی اس ہنگامی آرائی کا حصہ بنے۔
1990ء کے انتخابات میں آئی جے آئی کو کامیابی عطا کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے پاس صرف 44ایم این اے تھے۔
غلام اسحق خان نوازشریف کی حکومت برطرف کی۔ بلخ شیر مزاری کی سربراہی میں عبوری حکومت بنی۔ سپریم کورٹ نے اس عبوری حکومت کو چلتا کیا نوازشریف کی حکومت بحال ہوگئی۔ ایک ماہ چند دن کی عبوری حکومت میں آصف علی زرداری ماحولیات کے وفاقی وزیر تھے انہیں جیل سے رہا کرواکر حلف دلوایا گیا تھا۔
صدر اسحق اور نوازشریف کا جھگڑا کاکڑ فارمولے پر اس کے باوجود ختم ہوا کہ نوازشریف نے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ دونوں رخصت کردیئے گئے۔
1993ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آگئی۔ اب عورت کی غیرشرعی حکمرانی قابل قبول ہوگئی۔ پی پی پی کی یہ حکومت اس کے اپنے لائے صدر فاروق لغاری نے کرپشن کے الزامات پر برطرف کی مگر غصہ کسی اور بات کا تھا۔
نوازشریف اقتدارمیں آگئے۔ اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویزمشرف کے ساتھیوں نے ان کا تختہ الٹ دیا۔
دسمبر 2000ء میں وہ (نوازشریف) 10سالہ معاہدہ جلاوطنی کرکے سعودی عرب سدھارگئے۔
بینظیر بھٹو پہلے ہی ملک سے باہر تھیں۔ زرداری جیل میں تھے۔
جنرل مشرف کے ایک ماتحت میجر جنرل احتشام ضمیر نے ایم ایم اے کے نام سے مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنوایا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں سے اس مذہبی اتحاد کا الیکشن دو حکومتی محکموں نے لڑا اور خوب لڑا۔
مولانا نے یہ احسان یوں اتارا کہ مشرف کی بغاوت کو آئینی تحفظ دلوانے کے لئے آئینی ترمیم منظور کروادی۔
صلے میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ لے لیا حالانکہ پیپلزپارٹی میں سے پیٹریاٹ تخلیق کرنے کے باوجود پی پی پی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ نون لیگ کے 17ارکان قومی اسمبلی اے آر ڈی کی وجہ سے اس کے ساتھ تھے۔
2008ء میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی۔ مولانا اس کے اتحادی تھے۔ 2013ء میں نوازشریف وزیراعظم بنے آپ ان کے اتحادی ہوگئے۔
2018ء کے الیکشن میں مولانا قومی اسمبلی سے باہر ہوگئے۔ گو ان کی جماعت کے پاس 13ارکان قومی اسمبلی موجود ہیں۔ مولانا اسمبلیوں میں حلف اٹھانے کے حق میں نہیں تھے۔ نون لیگ کے ایک دھڑے کا بھی یہی موقف تھا لیکن پھر مولانا اور نون لیگ مان گئے حلف اٹھالیا گیا
لیکن عمران خان کی حکومت کے ذکر پر ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔
پی ڈی ایم بننے سے قبل انہوں نے حکومت کے خلاف خوب مذہبی کارڈ کھیلا۔ پی ڈی ایم کی تشکیل کے مرحلہ میں یہ طے ہوگیا کہ مذہبی کارڈ نہیں کھیلا جائے گا مگر مولانا کی تو سیاست ہی مذہب کی مرہون منت ہے۔
خیر اب پی ڈی ایم بکھر چکا، مولانا آزاد ہیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ وہ تحریک چلائیں، استعفے دیں جو دل کرے کریں۔
البتہ ان سے درخواست ہے کہ زبان و بیان پر قابو رکھیں اپنا بھرم ٹوٹنے نہ دیں۔
یہ بھرم ٹوٹا تو بات دور تلک جائے گی شاید بات اس دن سے شروع ہو جب ملتان میں بہمن جی کے شراب خانے پر حملہ ہوا تھا یہ 1979ء کی بات ہے۔
آج 2021ء ہے دنیا آگے بڑھ چکی حالات تبدیل ہوگئے۔
مولانا پیپلزپارٹی کو گالی دیں گے تو جواب بھی آئے گا، بدمزگی بڑھے گی۔
مناسب یہ ہے کہ وہ گالی پر معذرت کریں اپنے نئے پالن ہار کے ساتھ خوش رہیں اور کوشش کریں کہ ’’کسی‘‘ سے کیا وعدہ پورا کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر