عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاء شاہد کا اردو روزنامہ خبریں سرائیکی قومی سوال اور سندھی اخبار "خبرون” سندھی قومی سوال دونوں کو سرائیکی اور سندھ عوام کی ترجمانی کے نام پہ مسخ کرنے اور صوبوں کے بننے کے عمل کو محض انتظامی مسئلہ قرار دیتا رہا جو پہلے انگریز نوآبادیاتی حکمرانوں کا موقف تھا اور پھر یہ یو پی سی پی کی اردو بولنے والی اور مشرقی و مغربی پنجاب کی حکمران اشرافیہ کا موقف بن گیا تھا –
ضیاء شاہد نے اپنی موت سے کچھ ماہ پہلے ایک سلسلہ وار مضمون میں باچا خان، ولی خان، عبدالصمد اچکزئی، نواب خیربخش مری، نواب اکبر بگٹی، جی ایم سید، میر غوث بخش بزنجو کو ملک دشمن، غدار لکھا اور ایک سال پہلے اُس نے سرائیکی قوم کی بات کرنے والے رہنماؤں کو ہندوستانی ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی-
ضیاء شاہد نے اپنی موت تک کسی پنجابی قوم پرست کو غدار نہیں کہا، کسی پنجابی کانگریسی کو غدار نہیں لکھا تھا _ وہ یونینسٹ پارٹی جو انگریز کی سَند یافتہ ٹوڈی پارٹی تھی کے ترجمان مولانا ظفر علی خان یا کانگریس کے حامی شورش کاشمیری کو یا متحدہ قومیت کے حامی پنجابی احراری مولوی غزنوی صاحب کو، پنجاب کے چیف منسٹر چوہدری افضل حسین کو اُن القاب سے نہ نواز سکا جن سے یہ سندھی، پشتون، بلوچ اور سرائیکیوں کو نوازتا رہا-
مسعود کھدر پوش جن کے نظریات حیدر بخش جتوئی جیسے تھے اور پنجابی قوم ہرست تھے اُن کو قوم. پرستی کی بنا پہ یہ غدار نہ لکھ سکا بلکہ اُن کی تعریف میں تو قلم توڑ کر رکھدی
فرق صرف اتنا ہے کہ سندھی دانش بہت جلد خبرون کا ایجنڈا پہچان گئی اور وہاں یہ پکوڑے لیپٹ کر بیچنے کی ردی میں بدل گیا لیکن روزنامہ خبریں ملتان کے اس موقف کے خلاف ابھی تک وسیب کے لوگوں کا شعور اُس سطح تک نہیں پہنچا جب یہ محض "چیتھڑا” رہ جائے گا-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر