تونسہ شریف : سرائیکی وسیب میں میں ڈینگی وائرس کے بعد کانگو وائرس بھی سر اٹھانے لگا ہے۔نشتر اسپتال میں کانگو وائرس کے مریضوں کی تعداد دو ہو گئی ہے جبکہ چار مریضوں کی رپورٹ آنا باقی ہے۔
اب تونسہ شریف کے علاقے محلہ المرتضی ٹاؤن میں کانگو وائرس کا کیس سامنے آ یا ہے۔ کانگو وائرس سے متاثرہ شخص کو نشتر اسپتال ملتان منتقل کر دیا گیا ہے۔
کانگو وائرس سے متاثرہ شخص کو مرض کی تشخیص کے بعد نشتر اسپتال ملتان منتقل کیا گیاہے۔۔ڈاکٹرز نے ابتدائی ٹیسٹ کے بعد مریض میں کانگو وائرس کی تصدیق کر دی ہے۔
تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والے کانگو وائرس سے متاثرہ شخص کی شناخت 45 سالہ اللہ بخش کے نام سے ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ
کانگو وائرس جسے ’دماغی بخار‘ کہا جاتا ہے کا طبی نام ’کریمین کانگو بخار‘ ہے ۔ اس کی دیگر اقسام ڈینگو, لینزا ,ایبولا اور فٹ ویلی وائرس کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق کانگووائرس کوروسی سائنسدانوں نے45-1944 ء میں دریافت کیا تھا ۔ یہ مرض پالتو جانوروں کی جلد پر پائے جانے والے ایک خاص قسم کے چیچٹر (Tich) کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جس سے متاثرہ شخص محض سات دن کی بیماری کے بعد دم توڑدیتا ہے ۔
اس بیماری کی تشویش ناک بات اس کا آسانی سے ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقل ہوجانا ہے ۔
کانگو بیماری کی اہم علامات میں شدید تھکاؤٹ ‘ بخار، بے چینی، بے ہوشی، پٹھوں میں شدید کھنچاؤاور قوت مدافعت میں کمی شامل ہیں جس کی وجہ سے مریض کی طبیعت گری گری سی رہتی ہے اوروہ کمزوری محسوس کرتا ہے۔
اس بیماری کے اگلے مرحلے میں مریض کے دل کی دھڑکن کمزورپڑنے لگتی ہے اور فشار خون کم ہونے کی وجہ سے مریض پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ دماغی بخار کے مرض میں مبتلا مریض کے پھیپھڑے، جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق چیچٹریوں کے کاٹنے کے بعد علامات ایک سے تین دن میں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جب کہ متاثرہ جانور یا انسان کے خون سے متاثر ہونے کی صورت میں علامات پانچ سے سات دن میں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق کانگو وائرس کے پھیلاؤ کا سبب تین ذرائع ہیں۔اول یہ کہ وائرس زدہ مریض یا متاثرہ جانور کے خون اوریا دیگر جسمانی رطوبت سے پھیلتا ہے، دوئم یہ کہ ایسی سرنج کے استعمال سے جو متاثرہ شخص یا جانور کے لگ چکی ہو اوریا پھر ایسی اشیا کے استعمال سے جو مریض کے زیراستعمال ہوں اس سے بھی پھیلتا ہے۔
اس موذی بیماری کے پھیلاؤکا تیسرا سبب جانوروں میں پائے جانے والے کیڑے یا جوئیں ہیں جسے چیچڑی بھی کہا جاتاہے ، جو جسم سے چھو جائے اور یا پھر وہ کیڑایا چیچڑی کسی شخص یا جانور کو کاٹ لے۔
کانگو وائرس زیادہ تران جگہوں پر پیدا ہوتے ہیں جہاں مویشی رکھے یا پالے جاتے ہیں۔ جانوروں سے انسانوں میں نہایت تیزی سے منتقل ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق ضروری ہے کہ مویشیوں کو آبادی سے دور رکھا جائے۔ کانگو وائرس سے بچنے کے لیے جس جگہ جانور رکھے جاتے ہیں وہاں کیڑے مار اسپرے کیے جائیں،متاثرہ جانوروں کو وقت ضائع کیے بغیر تلف کردیا جائے، چھوٹے بچوں، بزرگوں اورخواتین کو ان علاقوں میں لے جانے سے گریز کیا جائے جہاں جانوروں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ