مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امر جلیل کا ایک افسانہ کچھ احمقوں کی نظر میں آگیا۔ شکر ہے کہ انھیں سندھی نہیں آتی یا انھوں نے امر جلیل کے مزید افسانے نہیں پڑھے۔ میں نے پڑھے ہیں۔ اسی لیے میں ان سے ملنے سے پہلے بھی ان کا پرستار تھا۔
پھر ان سے ملاقات ہوئی۔ تنہائی میں نہیں، بھرے مجمع میں۔ کراچی ایکسپو سینٹر میں بک فئیر تھا۔ میرے بیوی بچے ساتھ تھے۔ مجھے امر جلیل نظر آئے۔ میں نے سلام کیا۔ نام بتایا۔ وہاں سب نے دیکھا، میری بیوی بچوں نے بھی دیکھا کہ انھوں نے ایک دم مجھے گلے لگالیا۔ میں حیران رہ گیا۔
دوسری بار ان سے ملاقات ان کے گھر ہوئی۔ بھائی مسرور پیرزادو مجھے وہاں لے گئے تھے۔ امر جلیل صاحب نے محبت سے استقبال کیا، خوب خاطر تواضع کی، میری کتابوں کو سینے سے لگایا، میرے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ اور جو گفتگو کی، وہ ایک بڑے دانشور کی گفتگو تھی۔
میں ان کی کتابیں بھی ساتھ لے گیا تھا۔ سندھی اور انگریزی کی کتابیں، کیونکہ مجھے ان کی اردو تحریروں کی کوئی کتاب نہیں مل سکی تھی۔ شاید تب تک کوئی چھپی نہیں تھی۔ میں نے ان سب پر ان سے دستخط کروائے۔
امر جلیل کے ایک پرانے افسانے پر ملا ذہنت والوں نے ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ ابھی کہیں پڑھا کہ امر جلیل کو کچھ لکھتے ہوئے پاکستانی معاشرے کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ کیسی عجیب منطق ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کی سندھ کی چھ ہزار سال کی تاریخ فراموش کردیں، اس کا ادب نظرانداز کردیں، اس کی روایات بھلادیں اور چند عشروں کے انتہاپسند معاشرے کے غلام بن جائیں۔
شاہ لطیف اور سچل سرمست کو رہنے دیں، شیخ ایاز ابھی ہمارے دور تک موجود تھے۔ انھیں پڑھ لیں۔ شاید آپ کو سندھی ادب کا مزاج سمجھ آجائے۔ یہ اردو ادب اور پنجابی ادب سے مختلف ہے۔ اس مزاج سے آشنا ہوئے بغیر کسی ایک ادیب کی کسی ایک تحریر پر طوفان اٹھانا جاہلوں کا شیوہ ہے۔
کئی پبلشر غیر ملکی ادب کے تراجم مسلسل چھاپ رہے ہیں۔ اپنی زبانوں کی طرف توجہ دیں۔ سندھی، بلوچی، پشتو اور سرائیکی ادب کے تراجم چھاپیں۔ نام نہاد مرکزی دھارے بلکہ گرداب میں پھنسے ہوئے، جنونی مذہبی بیانیے میں گرفتار لوگوں کو اپنے سماج کی تاریخ و ادب سے بھی کچھ آشنائی ہو۔
یہ مذہبی جنون ایسا ہے کہ ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے، غیر ملکی ادب پڑھنے اور بیرون ملک سفر کرنے سے بھی ہلکا نہیں پڑتا۔ میں صرف امید کرسکتا ہوں کہ مقامی ادب ان کے رگ و پے میں دوڑتے زہر کو کچھ کم کرسکے۔ اس زہر کا تریاق فی الحال دستیاب نہیں کیونکہ اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔
دنیا کے ہر ملک کے بیشتر ادیب، شاعر، صحافی، فنکار، ایکٹوسٹ بائیں بازو کے ہوتے ہیں۔ احتجاجی ہوتے ہیں۔ مذہب اور ریاست، ملائیت اور حکومت کو چیلنج کرتے ہیں۔ کچھ باآواز بلند اور کچھ علامتی انداز میں۔
دائیں بازو والے مذہب کی آڑ لیتے ہیں لیکن اسٹیٹس کو، فرسودہ نظام کے حامی ہوتے ہیں۔
امر جلیل پر تنقید کرنے والوں کی دم اٹھاکر دیکھیں، اسٹیبلشمنٹ کا ٹھپا نظر آجائے گا۔
ان لوگوں کو جلانے کے لیے امر جلیل ہی کے تین جملے پیش کرتا ہوں:
جوتے شوکیس میں اور کتابیں سڑک پر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس قوم کو کتابوں کی نہیں، جوتوں کی ضرورت ہے۔
اگر پتھر کے بت کی پوجا کرنا حماقت ہے تو پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارنا کہاں کی دانش مندی ہے؟
اور
کچھ لوگوں کی بے گناہی کے ثبوت کے لیے اتنا کافی ہے کہ ان کی مخالفت مولوی کرتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر