نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خطرات سے دوچار افغان امن معاہدہ||حیدر جاوید سید

حرفِ آخر یہ ہے کہ یکم مئی 2021ء کے امریکی انخلاء سے قبل اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ افغان سرزمین پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔ داعش وغیرہ کا معاملہ حل کیا جائے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روس کی دعوت پر ماسکو میں ’’افغانستان کانفرنس‘‘ ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہے جب افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ طالبان معاہدہ کو خطرات لاحق ہیں۔ گو افغان امن کانفرنس میں شریک ممالک نے طالبان اور افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ فوری طورپر جنگ بندی کی جائے۔ یہ مطالبہ گو درست ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ افغان معاہدہ امن کے دونوں فریق امریکہ اورطالبان دوحہ معاہدہ میں جنگ بندی پر متفق کیوں نہ ہوپائے؟
اصولی طورپر دوحہ معاہدہ میں جنگ بندی اولین تقاضہ ہونا چاہیے تھا۔ امریکیوں کا یہ کہنا کہ طالبان کے اس کے لئے تیار نہیں تھے یا یہ کہ طالبان کی شرط یہ تھی کہ پہلے ہمارے قیدی رہا کئے جائیں، زمینی حقائق سے مختلف بات ہے۔ دوحہ مذاکرات کے دنوں میں ہی افغان عوام کے بہی خواہوں نے امریکی انتظامیہ کو دواہم باتوں کی طرف متوجہ کیا تھا اولاً یہ کہ اگر اس معاہدہ میں افغان حکومت کو نظرانداز کرکے امریکہ نے بالابالا فیصلے کئے تو ان فیصلوں کے دوررس نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
ثانیاً یہ کہ دوحہ معاہدہ میں جنگ بندی کے ساتھ ساتھ داعش کے معاملہ پر بھی واضح بات ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کو معاہدہ کرنے کی جلدی تھی تاکہ وہ صدارتی انتخابات میں اسے اپنی کامیابی کے طور پر کیش کرواسکے۔ جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اعتماد سازی کے لئے طالبان کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا کہ وہ سہ فریقی معاہدہ پر آمادہ ہو یعنی معاہدہ امریکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہو۔
ایسا ہوتا تو بہت ساری ان قباحتوں سے بچا جاسکتا تھا جو اب پیدا ہورہی ہیں۔ امریکہ طالبان معاہدہ کے مطابق امریکہ کو یکم مئی 2021ء تک افغانستان سے افواج کے انخلا کو یقینی بنانا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے معاہدہ امن کے دونوں فریق امریکہ اور طالبان ایک دوسرے پر معاہدہ سے انحراف کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ دوسری طرف حیران کن طور پر امریکہ نے ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کی تجویز پیش کردی جس میں افغان حکومت، طالبان اور دوسرے نسلی گروہ شامل ہوں۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ موجودہ افغان حکومت کی بساط لپیٹ کر عبوری انتظام کرلیا جائے۔ افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اس تجویز پر پچھلے دنوں افغانستان کی حکومت مختلف افغان گروہوں اور پاکستان سے بھی صلاح مشورہ کیا۔ قبل ازیں ایک مرحلہ پر بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا مختلف افغان نسلی گروہوں کے نمائندوں نے امریکہ اور پاکستانی حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔
بین الافغان مذاکرات مثبت نتائج دیتے اگر یہ امریکہ طالبان معاہدہ سے قبل شروع کئے جاتے اور دوحہ معاہدہ کے وقت مذاکرات کی میز پر دو نہیں تین فریق موجود ہوتے تاکہ طالبان کو بھی یہ احساس ہوتا کہ افغانستان میں مستقبل کے حوالے سے عمومی سوچ کیا ہے۔ ماسکو میں جاری (ان سطور کے لکھے جانے کے وقت) افغان امن کانفرنس میں روس، چین اور پاکستان کے ساتھ امریکہ بھی شریک ہے۔ جنگ بندی کےلئے جاری کئے گئے مشترکہ بیان پر چاروں ممالک کے نمائندوں کے دستخط ہیں۔
یہی نکتہ قابل غور ہے کہ دوحہ معاہدہ میں جب جنگ بندی شامل نہیں تھی تو یہ راگ کیوں الاپا گیا کہ اس سے بہتر کچھ اور ممکن نہیں؟ طالبان تو اپنے تئیں یہ موقف رکھتے ہیں کہ چونکہ 9/11 کے بعد امریکیوں نے طالبان کی حکومت ختم کی تھی اس لئے امریکی انخلاء کی صورت میں اقتدار طالبان کے حوالے کیا جائے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا طالبان کا یہ مطالبہ درست تھا؟ درست نہیں تھا تو امریکیوں نے اس بنیادی نکتے کو نظرانداز کرتے ہوئے معاہدہ کیوں کیا۔
ثانیاً یہ کہ امریکی حکام اس امر سے لاعلم ہیں کہ اگر طالبان کے اس موقف کو مان لیا جاتا ہے تو یکم مئی تک مکمل ہونے والے انخلاء کے بعد ایک نئی خانہ جنگی کا دروازہ کھل جائے گا۔ ثالثاً یہ کہ افغانستان میں جمہوری عمل کے ذریعہ منتخب و برسراقتدار حکومت کی معاہدہ کے لئے صرف رضامندی کافی تھی یا اسے اس میں ایک فریق کے طور پر شامل کیا جانا لازم تھا؟ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ امریکیوں نے نہ صرف دوحہ معاہدہ میں جلد بازی کی بلکہ بنیادی حقیقتوں کو نظرانداز کرزنے کے ساتھ افغانستان میں موجود مقامی و غیرمقامی مسلح گروہوں، ان میں داعش، اسلامک موومنٹ ازبکستان، کالعدم ٹی ٹی پی، جنداللہ وغیرہ شامل ہیں کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اسی طرح امریکیوں نے افغان حکومت اور طالبان کو مستقبل کے حوالے سے جو مسودہ (امریکی اسے مستقبل کے آئین کا بیانیہ قرار دے رہے ہیں) فراہم کیا ہے اس میں بھی اس اہم معاملے کو نظرانداز کیا گیا کہ موجودہ افغان حکومت جوکہ عوام کی منتخب کردہ ہے کو طالبان کے مساوی حیثیت دی گئی جبکہ اصولی طور پر دوحہ معاہدہ سے قبل طالبان سے یہ منوایا جانا چاہیے تھا کہ وہ افغان عوام کے جمہوری حق کا احترام کریں گے اور سیاسی عمل میں شریک ہوکر آگے بڑھیں گے تاکہ کسی مرحلہ پر بدمزگی پیدا نہ ہو۔
فی الوقت صورت یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور طالبان ایک دوسرے پر دوحہ معاہدہ سے انحراف کے الزامات عائد کرکے کارروائیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں دوسری طرف امریکیوں نے عبوری انتظام کی تجویز پیش کی لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ منتخب حکومت کی بساط لپیٹ کر عبوری انتظام کیوں اور کیا امریکہ اس پر آمادہ ہے کہ اقتدار کلی طور پر طالبان کے حوالے کردیا جائے؟ بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے کیا گیا معاہدہ دوحہ گلے پڑا ڈھول ہے امریکی اسے اتار کر پھینکنا چاہتے ہیں نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو۔ امریکی اب افغانستان میں قومی حکومت کے خواہاں ہیں۔ قومی حکومت سے ان کی مراد کیا ہے کیا موجودہ افغان حکومت کے لئے جن رائے دہندگان نے ووٹ دیئے وہ وسط ایشیائی ریاستوں، ایران اور پاکستان کے باشندے تھے؟
9/11 کےبعد سے اب تک کی صورتحال کا مجموعی تجزیہ ہو یا واقعات کا ایک ایک کرکے تجزیہ یہ امر ہر کس و ناکس پر عیاں ہے کہ طالبان ایک عرصہ تک اپنے ہم خیال عسکری گروپوں کے ساتھ مل کر جنگ میں مصروف رہے۔ دوحہ مذاکرات پر آمادگی کے بعد طالبان نے بظاہر ان عسکری گروپوں سے دوری اختیار کی لیکن حقیقت میں داعش کے سوا دوسرے تمام عسکری گروپوں کے مراکز اور تربیتی کیمپ افغانستان کے ان علاقوں میں ہیں جو طالبان کے زیراثر ہیں۔ یہ بجا ہے کہ دوحہ معاہدہ کے لئے طالبان کو آمادہ کرنے اور مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے پاکستان نے بھرپور کردار ادا کیا مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے اس کردار کے باوجود طالبان نے اپنے زیراثر علاقوں میں موجود ٹی ٹی پی کے پانچ گروپوں، جنداللہ اور لشکر جھنگوی العالمی کے مراکز اور تربیتی کیمپ بند نہیں کروائے۔
اس سارے معاملے میں امریکیوں اور طالبان سے ایک اہم غلطی یہ بھی ہوئی کہ دونوں نے ایران کو یکسرنظرانداز کیا جہاں آج بھی 15لاکھ افغان باشندے مہاجرین کے طور پر مقیم ہیں۔ پاکستان میں اب بھی 30لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں یہ تعداد ان افغان باشندوں کے علاوہ ہے جنہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان کی شناختی دستاویزات حاصل کرلی ہیں۔ دوحہ معاہدہ میں یہ طے ہوا تھا کہ افغان سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ خود امریکہ نے داعش کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی نہیں کی حالانکہ داعش کو محفوظ راستوں سے عراق اور شام سے افغانستان لانے میں بنیادی کردار امریکیوں کا رہا۔
ان حالات میں اگر امریکی دوحہ معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے یکم مئی تک افغانستان سے انخلا کو یقینی بناتے ہیں تو مستقبل کے حوالے سے موجود خدشات کا تدارک کیسے ہوگا۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جسے بظاہر نظرانداز کیا جارہا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل کے حوالے سے مختلف تجاویز دینے کی بجائے سیدھے سبھائو اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان وار لارڈز کے ہاتھوں نہ چڑھ جائے ۔ یہ اسی طور ممکن ہے جب منتخب افغان حکومت کو اولیت حاصل ہو۔ نظام میں نقب لگاکر کسی فریق کو مسلط کرنے کی بجائے طالبان سے کہا جائے کہ وہ سیاسی عمل میں شریک ہوکر عوامی اعتماد حاصل کریں۔ افغان سرزمین پر موجود دیگر عسکری گروپوں کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے اسے نظرانداز کرنے کی بجائے امریکہ، افغان حکومت اور طالبان تینوں مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ یہاں ہم چند سال قبل چین میں منعقد ہوئی افغان امن کانفرنس کے اعلامیہ کے پہلے نکتہ کا ذکر ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس میں کہا گیا تھا
’’افغان اقتدار اعلیٰ کے حقیقی مالک افغان عوام ہیں کسی بیرونی قوت یا داخلی گروہ کو بندوق کے زور پر اپنی مرضی افغان عوام پر مسلط نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے حوالے سے غوروفکر کرتے وقت افغان تاریخ کے تین قریبی ادوار (افغان انقلاب ثور، طالبانائزیشن، 9/11 کے بعد کا افغانستان) کا اجمالی جائزہ لیا جانا اشد ضروری ہے۔ اسی طرح ہم اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کے پچھلے چالیس سالوں کی افغان پالیسی کی بنا پر پاکستان کو بدترین بدامنی کا سامنا کرنا پڑا۔ 70 ہزار سے زائد مردوزن اور بچے اس پالیسی کی بھینٹ چڑھے۔ مجموعی طور پر 3سو ارب ڈالر کا معیشت کو نقصان ہوا۔ افغانستان کے داخلی تنازعات کی وجہ سے آبادی کے انخلا سے ایران اور پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
ایرانیوں نے مربوط حکمت عملی کے تحت مہاجرین کے مسئلہ کو دیکھا بدقسمتی سے ہمارے یہاں مربوط حکمت عملی کی جگہ ’’مسلم ہیں ہم سارا جہاں ہمارا‘‘ کی سوچ نے مسائل پیدا کئے۔ یہ مسائل آج بھی موجود ہیں۔
پاکستان کی حکومت ہو یا عوام، دونوں اس امر کے خواہش مند ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو یہی وہ صورت ہے جو مہاجرین کی واپسی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے دوحہ معاہدہ میں اس اہم معاملے کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ افغان تنازع کا ایک دلچسپ پہلو یہ ے کہ دوحہ معاہدہ میں جنگ بندی کا نکتہ شامل نہیں تھا اگلے مرحلہ میں طالبان نے افغان حکومت سے وسیع تر مذاکرات کے لئے جو ابتدائی معاہدہ کیا اس میں بھی طالبان جنگ بندی کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔
اس طور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب اگر امریکی یکم مئی تک انخلاء کے عمل کو مکمل کرتے ہیں (جوکہ بظاہرممکن دیکھائی نہیں دے رہا) تو ہمارا نہیں خیال کہ معاملات اس طور آگے بڑھ پائیں گے جس کی افغان عوام کے بہی خواہوں کو توقع ہے۔ موجودہ حالات میں دو اہم امور پر غیرمتزلزل موقف اپنانے کی ضرورت ہے اولاً جنگ بندی، وہ غیرمشروط ہو اور طالبان پر دوٹوک انداز میں واضح کیا جائے کہ اس کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ پائیں گے
ثانیاً منتخب افغان حکومت کی مقدم حیثیت کیونکہ وسیع البنیاد حکومت کا تصور افغان امن پسندوں بلکہ منتخب افغان حکومت کے رائے دہندگان کی توہین ہوگی۔
ہماری دانست میں بہت ضروری ہے کہ کم وقت کے باوجود طرفین داعش اور دوسرے عسکری گروپوں کے معاملات کو ازسرنو دیکھیں۔ ثانیاً یہ کہ اس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے اس کے لئے پاکستان کو پہل کرنا ہوگی۔خصوصاً ایک ایسی افغان امن کانفرنس کا انعقاد جس میں امریکہ، روس، چین، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہوں۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ یکم مئی 2021ء کے امریکی انخلاء سے قبل اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ افغان سرزمین پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔ داعش وغیرہ کا معاملہ حل کیا جائے۔ افغانستان کے سارے پڑوسی ممالک بڑی طاقتوں کے تعاون سے تعمیروترقی فنڈ قائم کریں جس سے افغانستان میں تعمیروترقی کے ساتھ بیرون ملک مقیم افغانوں کی وطن واپسی میں معاونت ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ بھارت پر زور دے کہ بھارت سے داعش کو افرادی قوت اور سرمایہ فراہم کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اسی طرح طالبان کی قیادت کو بھی ٹھنڈے دل سے حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ 20سال بعد اگروہ بدلتے ہوئے حالات کا ادراک نہیں کرتی تو اس سے بگاڑ پیدا ہوگا

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author