وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ کے مطابق دنیا میں پچھلے ایک سال کے دوران خوشی کا تناسب کم ہوا ہے اور اس کی وجہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی بے یقینی اور خوف کی کیفیت ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا کے خوش باش ملکوں میں پاکستان دنیا کے 149ملکوں میں39 درجے کی تنزلی کے بعد 105 ویں نمبر پرآ گیا ہے۔ پچھلے برس کی رپورٹ میں پاکستان کا درجہ 153 ملکوں میں 66 ویں نمبر پر تھا۔
رپورٹ کے نتائج سے سامنے آیا ہے کہ پہلے دس انتہائی خوش ملکوں میں فن لینڈ، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، آئیس لینڈ، ہالینڈ، ناروے، سویڈن، لکسمبرگ، نیوزی لینڈ اور آسٹریا ہیں
پاکستان کے لوگوں کی ناخوشی میں دنیا کے لیے کوئی خبر ہو تو ہو، ہمارے لیے تو یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ پاکستان کے کسی شہر میں کسی سڑک پر نکل جایئے، مجال ہے جو کسی چہرے پر مسکراہٹ نظر آئے، کسی کوچے کا رخ کیجئے، ممکن نہیں کہ کوئی نوجوان قہقہہ سماعت میں رس گھولے۔ کبھی لاہور میں قیوم نظر کا خارا شگاف قہقہہ گورنمنٹ کالج لاہور کے کیفے سے پاک ٹی ہاﺅس تک گونجتا تھا اور کچھ دور شیزان ریستوران سے سردار صادق کا قہقہہ گویا اس مصرع طرح پر گرہ لگاتا تھا۔ صبح سویرے لیڈی سائیکلوں پر سوار پری چہرہ لوگوں کے کھلکھلاتے پرے پنجاب یونیورسٹی کی طرف جاتے دکھائی دیتے تھے۔ پھر اس شہر میں ایک شاعر اترا۔ سدا رہے نام اس کا پیارا، ناصر کاظمی کہلاتا تھا۔ انبالے کی روشنی تھا۔ اداسی کے اسباب تو کچھ بعد میں سامنے آئے، وہ تو اچھے دنوں ہی سے کچھ ایسے شعر کہتا آ رہا تھا۔
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
اور پھر
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
خود اداس رہتا تھا اور دوسروں کے لیے یہ تجویز تھی ۔
مت ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
60 ءکی دہائی میں سیاسی بیان بازی کی ہوا چلی تو ایک روز ناصر انتظار حسین کے پاس پہنچے۔ انتظار حسین مشرق میں لاہور نامہ لکھا کرتے تھے۔ فرمائش کی کہ آج میرا بیان بھی شائع کر دیں۔ انتظار نے کہا ۔ فرمائیے۔ آپ کیا بیان دینا چاہتے ہیں۔ ناصر نے دھویں کا مرغولہ اڑاتے ہوئے کہا، ” لکھو، معروف غزل گو شاعر ناصر کاظمی نے بیان دیا ہے کہ آج میں اداس ہوں“۔ انتظار صاحب نے ہکا بکا ہو کر کہا مگر صاحب آپ کے بیان میں خبریت کہاں ہے؟انتظار ٹھہرے افسانہ نویس، شاعر کی طرزیں کیاجانیں۔ شاعر نے تو 58 ءکے موسم خزاں ہی میں خبر دے دی تھی۔
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
جس بستی کے شاعر اداس ہو جائیں، جہاں گائیک خاموش ہو جائیں، جہاں پرندے ہجرت کر جائیں، جہاں بچے ہنسنا بھول جائیں، وہاں گلیوں میں دھوپ تعزیت کرنے اترتی ہے۔ یہ دیس ہمیشہ سے تو ایسا اداس نہیں تھا۔ شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ۔ بہت بعد میں فیض نے بھی تو یاد دلایا تھا۔
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
ثقہ لوگ قہقہے کو ابتذال سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو ثقاہت کو ثقافت میں بدلنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قہقہہ تو تسلیم کا اشارہ ہے، امید کا استعارہ ہے، تحفظ کا نشان ہے۔ جہاں سے قہقہہ اٹھ جائے وہاں میر انیس جیسے بابصیرت سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔
یہ بے سبب نہیں سُونے گھروں کے سناٹے
اور جو سبب ڈھونڈنے نکلیں تو فہرست نہیں، دفتر تیار ہو گا۔ لیاقت علی، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹواور نواز شریف کی صورت میں امیدوں کی جو فصل کھیت رہی، وہ الگ ہے۔ اداسی کے اس نسخے میں ایوب، یحییٰ، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے اجزا شامل کر لیں، تین آئین مثلہ کیے گئے، وطن دولخت ہوا، بھابھڑا سے ڈھاکہ تک، سائیٹ کراچی سے لیاقت باغ تک، کالونی ملز سے ہشت نگر تک، پکا قلعہ سے کھچی گراﺅنڈ تک، ڈیرہ بگتی کی پہاڑیوں سے چہار باغ سوات تک
پتیاں روتی ہیں، سر پیٹتی ہیں
قتل گل عام ہوا ہے اب کے
اور پھر یہ بھی تو دیکھیں حالیہ انسانی تاریخ میں پاکستان جیسے کتنے ایسے ملک ملیں گے جہاں کے بہترین ذہنوں نے تین نسلوں سے انسانی وقار، جمہوریت اور شہریت کی مساوات کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں لیکن ہر آئے روز حکم ہوتا ہے، ”اٹھاﺅ پتھر اور چڑھو پھر سے پہاڑ کی چوٹی پر“۔
اداسی کا ایک پہلو تو اس آگہی سے بھی جنم لیتا ہے کہ اسی دنیا میں ”ایسے معمورے بھی ہیں، خوشحال ہے خلقت جن کی“۔جہاں علم کے چشمے بہتے ہیں، جہاں کارخانوں میں پہیہ گھومتا ہے، جہاں حکمران عوام کی مرضی سے چنے جاتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کی بہبود کے لیے سرگرداں رہتے ہیں، جہاں سڑکوں پر کوئی بچیوں کے لباس پر اعتراض کا یارا نہیں رکھتا، جہاں لکھنے والے کا قلم آزاد ہے، مصور کا مو قلم خشک نہیں ہوا اور ساز کے تار سُرمیں ہیں۔
ہماری اداسی محض غربت کا سوال نہیں۔ یہ وسائل کی قلت سے بھی جنم نہیں لیتی۔ ہماری اداسی ہمارے الجھاﺅ سے نکلی ہے۔ ہماری معاشرت کی سمت طے نہیں ہوئی، ہماری سیاست میں نشان منزل کا تعین نہیں ہوا، ہم نے مل جل کر رہنے کے لیے ضروری خطوط نہیں کھینچے۔ ہماری اداسی انہونی کے خوف کا نام ہے۔ ہم نے سوچ پر پہرے لگا رکھے ہیں اور ہم ایک مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ جو قومیں مسیحا کے انتظار میں رہتی ہیں وہ بالآخر تھک کر اداس ہو جاتی ہیں…. اور پھر یہ اداسی ٹھہر جاتی ہے۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر