رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش رہنا‘ کھل کر ہنسنا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوب مزے لینا مزاج بھی ہو سکتا ہے‘ خوش بختی اور مقدر بھی۔ میرے نزدیک یہ ہنر‘ فن اور زندگی کے فطری سلیقوں سے آشنائی ہے۔ خوش‘ خوش لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا‘ اٹھنا اور رہنا ایسا ہی ہے‘ جیسے آپ جنت کے خوابوں کے باغ میں سکھ اور چین کی زندگی گزار رہے ہوں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے خوش رہنے والوں کا ماحول ہمیشہ میسر رہا‘ طالب علمی کے زمانے سے آج تک۔ میرے قریبی دوست وہ ہیں جو سادہ زندگی گزارتے ہیں‘ مزید کے لالچ میں سرگرداں نہیں رہتے‘ نہ زیادہ کے حصول کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں‘ علم دوست ہیں اور حکمت کے راز تلاش کرتے ہیں‘ غور و فکر‘ مشاہدے‘ غلطیوں سے سبق حاصل کر کے‘ آنے والے دنوں کا راستہ بناتے ہیں۔ کسی سے بگڑتے نہیں‘ ناراض کم ہی ہوتے ہیں‘ دوسروں کی طرف سے کی گئی زیادتی برداشت کر لیتے ہیں‘ کچھ کر بھی سکیں تو انتقام کی خُو ان میں نہیں۔ اندر کی بات یہ ہے کہ خوش رہنا ہمارا اپنا ہی فعل ہے۔ باہر کی دنیا کتنی ہی حسین اور روح پرور ہو‘ اگر ہماری اپنی ذات فطرت کی رعنائی‘ لوگوں میں اچھائی اور ماحول جو بھی ہو‘ اس میں خوشیوں کو سمیٹنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو سب کچھ اندھیرے میں ڈوبا نظر آئے گا۔ ہر انسان کی فطرت میں خوش رہنا لکھا ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی فطرت کو بگاڑ لیں تو پیدائشی استعداد زنگ آلود ہو کر خاک میں مل جائے گی۔ اس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اپنی فطرت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں یا زمانے کا گرد و غبار چاٹتے چاٹتے اپنی اصلی اور حقیقی ذات کو تاریک راہوں پر ڈال دیتے ہیں۔
عظیم صوفی بزرگوں‘ فلسفیوں‘ شاعروں‘ ادیبوں اور ہر نوع کے اہلِ دل مذہبی مفکروں کا لکھا جو میں نے ابھی تک پڑھا ہے‘ یا اپنے محدود علمی خزانے میں جمع کر پایا ہوں‘ وہ ہموار‘ سادہ‘ با مقصد اور فطرت کے قریب زندگی گزارنے کا ہنر ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ درس و تدریس‘ تحقیق اور سفارت‘ جو اب نصف صدی پر محیط ہے‘ کے دوران بے شمار ممالک میں اہلِ علم اور اہلِ فکر خواتین و حضرات کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ خوش قسمت ہوں کہ زندگی بھر ان سے دوستی رہی۔ جو اب دنیا میں باقی ہیں‘ ان سے ملاقاتیں بھی ہو جاتی ہیں جبکہ رابطے کے نئے ذرائع سامنے آنے سے زمینی فاصلے معدوم ہو چکے ہیں‘ بس فون اٹھانے کی بات ہے‘ بات بھی ہو جاتی ہے اور دیدار بھی۔ میں نے سب کو بلا تخصیصِ مذہب‘ ملک اور قومیت مطمئن‘ سادہ‘ قناعت پسند اور فقیر منش پایا ہے۔ وہ کبھی اپنی خوبیوں‘ جائیدادوں‘ اولاد کی ترقی کی منزلوں یا کسی اور کی خرابیوں‘ کمیوں‘ خامیوں کا ذکر نہیں کرتے۔ وہ سب وقتِ موجود میں زندگی گزارتے ہیں‘ آج‘ ابھی‘ اس وقت۔ وہ زمانہ حال میں جیتے ہیں۔ ان کے لئے گزرا کل نکل چکا ہے‘ آج اور ابھی حقیقت ہے اور آنے والے کل کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح فکر مند ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کے دوست ہوں‘ کوئی ملنے والا ہو‘ اجنبی‘ شاگرد یا دفتری ہم کار‘ سب کے ساتھ وہ عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ تیزی اور تیکھا پن ان کی ذات میں نہیں۔ سب لوگ برابر ہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں کی سماجی سطحیں‘ جو روحوں کی بالیدگی کو برباد کر رہی ہیں‘ مغرب کے معاشروں میں یا پاکستان کے ان حلقوں میں‘ جہاں زیادہ تر میرا اٹھنا بیٹھنا رہا ہے‘ میں نے نہیں دیکھیں۔
یقین جانیں‘ جہاں ذات پات‘ قبائلیت‘ مصنوعی برتری‘ فخر و افتخار کی فضا ہو‘ وہاں سے یہ خاکسار کوسوں دور بھاگتا ہے۔ جہاں برابری نہیں اور کوئی آپ کو اوپر سے نیچے دیکھتا ہے‘ تو سمجھیں آپ کی عزت و احترام پر حملہ تو ہو ہی رہا ہے‘ اس کے ساتھ اگر آپ ایسے ماحول کو گوارا کرتے ہیں‘ تو آپ کی روح کی نرم و نازک پنکھڑیاں مسلی جائیں گی۔ جب لوگ لالچ‘ دوسرے سے توقعات اور ناجائز خواہشات کے غلام بنتے ہیں‘ تو ان کے اندر کی فطرت کی سب روشنیاں دم توڑ دیتی ہیں۔ مشاہدے میں ہے کہ ایسی زندہ‘ چلتی پھرتی‘ امیر و کبیر بھی اور غریب بھی‘ سب لاشیں ہر جگہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اپنی فطری آزادی اور احترامِ آدمیت‘ جو ہمارے خالق کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے‘ ہم سکوں کی کھنکھناہٹ میں کتنا سستا بیچ کر اندھیروں کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ مجھے تو ایسے لوگوں کی زندگیوں پر ترس آتا ہے‘ بس ان کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ایک اہم بات کہ زندگی کے ہر موڑ‘ ہر صورت حال اور عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں‘ تاریکیوں سے روشنی کی طرف آنے کے سب دروازے کھلے رہتے ہیں۔ کامیابی اپنی سادہ فطرت کی طرف لوٹنے میں ہے۔ اندر کی دنیا کا فطری اصول یہ ہے کہ آپ کا دل‘ اگر آپ اس کی آواز سن سکتے ہیں تو‘ آپ کو اطمینان‘ خوشی اور بھرپور زندگی گزارنے کی راہ پر ڈال دے گا۔ ہر وقت‘ ہر لمحہ راستے صاف ہیں‘ نہ دھند‘ نہ کوئی آندھی‘ اپنی فطرت کی کب سے بند آنکھوں کو ذرا کھول کر دیکھو‘ ایک نئی سحر‘ ایک نئی بادِ صبا آپ کی منتظر ہو گی۔
میرے خوش رہنے والے دوستوں کا یہ بھی وصف ہے کہ وہ دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرتے۔ سچ پوچھیں تو کبھی غیر موجود آدمی کے بارے میں بات ہی نہیں کرتے۔ اگر کسی سیاق و سباق میں ہو بھی جائے تو تعریف ہی ہو گی۔ میں تو ایسے ماحول سے گریز کرتا ہوں‘ جہاں چند لوگ جمع ہوں تو بات چیت سے ایسا لگے کہ غیبت کمیٹی کی خفیہ کارروائی جاری ہے۔ اگر معیوب نہ لگے تو بہتری اسی میں ہے کہ دوڑ لگائو اور کہیں اگلے سٹیشن پر جا کر دم سادھو‘ اور پھر کبھی ایسی چوکڑیوں کا رخ نہ کرو۔ نفسیاتی اعتبار سے ذرا جائزہ لیں تو ایسے لوگ اپنی زندگیوں سے اور اپنے آپ سے خوش نہیں ہوتے‘ اپنی ناکامیاں اور نامرادیاں دوسروں کے بارے میں خود ساختہ خامیوں میں چھپاتے ہیں۔ ہماری دھرتی کے کتنے فقیر‘ درویش بابے ہیں جو علم و دانش کا کتنا بڑا ذخیرہ ہمارے ورثے میں چھوڑ گئے ہیں‘ کہتے ہیں‘ اپنی فکر کرو‘ دوسروں کے بارے میں سوچنے کی آپ کو کیا پڑی ہے؟ بات بڑی مختصر اور سادہ ہے مگر ذرا دھیان دیں‘ تو بہت گہری ہے۔
بابا فرید شکر گنج یاد آ گئے‘ کہہ گئے ہیں کہ دوسروں کی چوپڑی پر نظر رکھے کیوں ترس رہے ہو‘ اپنی روکھی سوکھی اور ٹھنڈے پانی سے کیوں نہیں خوشی خوشی جیتے؟ ایسے لوگوں کو میں نے مایوس‘ نا خوش‘ حاسد اور دوسروں کا نقصان کرنے پر قائل پایا ہے۔ قدیمی فلسفہ لیں‘ مذاہب یا آج کے جدید علمِ نفسیات کے اوراق کھولیں‘ خوشی تو قناعت‘ سادگی اور اپنے بھروسے پر زندگی گزارنے میں لکھی ہے۔ کسی پہ رشک نہیں‘ اپنے نصیبوں پر خوش۔ خوش نصیب تو پیاز اور روٹی کھا کر بھی بہت خوش رہتا ہے‘ مایوس اور فطرت سے دور‘ قیمتی سے قیمتی کھانے کھا کر بھی رنجیدہ رہتا ہے۔ اندر کی دنیا ویران ہو تو باہر کی رعنائیوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم سکول جاتے تھے تو ماں جی گھی میں چپڑے پراٹھے کے ساتھ آم کے اچار کی ڈلی یا پیاز رکھ دیتی تھیں۔ ان پراٹھوں کا ذائقہ آج بھی یادوں میں ہی نہیں‘ منہ میں بھی محفوظ ہے۔ خود اگائے مٹروں‘ لہسن کی بُوکوں اور سبز دھنیے کی چٹنی بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ زیادہ کیا توقع ہو؟ خوش رہنے والے ہر حال میں خوش رہتے ہیں‘ مایوس تاریکیوں میں گم زندگیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ دعا ہے‘ آپ خوش رہیں‘ اوپر نہیں نیچے دیکھیں‘ جو نصیب عطا ہیں‘ ان سے لطف اندوز ہوں!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر