نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک زرداری سب پہ بھاری کیوں؟||انور خان سیٹھاری

پوری دنیا کہ رہی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کہ پاکستان نہ جائیں جنرل مشرف نے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے لیکن شہید بی بی نے کہاں پاکستان میں میری عوام پریشان ہے اور میں یورپ میں بیٹھ کر پرسکون زندگی گزارتی رہوں یہ ناممکن ہے۔

انور خان سیٹھاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ذاتی مخالف نہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کا ایسا لیول ہے کہ انکے ساتھ ذاتیات رکھی جائیں۔

قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے صرف اور صرف غریبوں مزدوروں ہاریوں اور مظلوموں کے حق میں لڑنے اور پاکستان کو دنیا کے برابر لاکھڑا کرنے کیلئے سیاست میں تشریف لائے۔

اس وقت کے جنریل کہتے تھے ہمارے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کر لیں جو حکم ہوگا ہم من و عن عمل کریں گے لیکن آپ عوام (جنہیں وہ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں) انکی بات نہ کریں۔

یہ کیسے ممکن تھا عوامی لیڈر عوامی بات نہ کرے عوامی لیڈر عوامی امنگوں کی ترجمانی نہ کرے عوامی قائد عوام کے شانہ بشانہ کھڑا نہ ہو؟

اسٹیبلشمنٹ اپنے کرتوتوں سے بعض نہ آئی اور قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے انہیں پھانسی لگا دیا گیا۔

مرنا تو ایک دن ہے ہی چاہے موت ایکسیڈنٹ سے ہو جائے چاہے ذاتی دشمنیوں سے ہو جائے چاہے چار پائی پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے ہو جائے لیکن قائد عوام نے اپنی عوام کیلئے اپنے غریبوں مزدوروں ہاریوں کسانوں اور مظلوموں کے اپنی زندگی کی آخری سانس تک وقف کر دی تھی اور اسی اثناء میں اسی محبت میں اسی جرم میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے انکی زندگی کا خاتمہ کیا اور شہید بابا امر ہو گئے۔

آج کوئی سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کیئے نہیں رہ سکتا اور نہ ہی قائد عوام کے ذکر کے بغیر سیاست دانوں کی سیاست مکمل ہے۔

سندھ کے دور دراز علاقے گڑھی خدا بخش میں مدفون شہید ذوالفقار کے بھٹو کے مزار پر ملک بھر سے لوگ روزانہ کی بنیاد پر جاتے ہیں اور انکی عظمت و رفعت کو شجاعت و بہادری کو با کرداری و شہادت کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں ثابت ہوا ایک بھٹو پورے سسٹم پہ بھاری ہے۔

پھر بابا کے نامکمل مشن کو مکمل کرنے کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے الم اٹھا وہ بھی اپنے شہید بابا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عوام کی بات کرنے لگیں انہیں کہا گیا عوام کی بات نہ کریں آپ تاحیات وزیراعظم ہیں ساری زندگی آپ کیا حکومت رہے گی پورا سسٹم آپ کے تابع ہوگا۔

لیکن بی بی نے کہا ہمیں مختصر عرصے کیلئے تخت و تاج نہیں چاہیے عاضی تابعداری نہیں چاہیے جھوٹی بادشاہت نہیں چاہیے وہ اقتدار ہی کس کام کا جہاں عوام کی بات نہ ہو غریبوں مزدوروں ہاریوں کسانوں اور مظلوموں کے حقوق نہ ہوں لہذا میں عوام کیلئے جنگ لڑوں گی۔

پھر کیا ہوا میرے محبِ وطن پاکستانیوں ان پر مقدمات بنائے گئے جیلوں میں قید رکھا گیا جلاوطن کیا گیا انکی منتخب حکومتیں گرائیں گئیں بالآخر عوامی لیڈر کو عوامی قائد کو عوامی سیاسی قبلے کو عوامی امنگوں کی ترجمان کو عوام کے بیچ پنڈی والوں نے پنڈی کے چوراہے پر عوام کے بیچ گالیاں برسا کر شہید کر دیا گیا۔

دنیا کی نظر میں تو بینظیر مر گئی عوامی دشمنوں نے تو بینظیر کو بظاہر ختم کرنے کے دعوے کر دیئے لیکن بینظیر نے کہاں مرنا تھا تم زندہ ہو کر مردہ ہو وہ مردہ ہو کر زندہ ہے بینظیر بھی اس مرتبے پر فائز ہوئیں جس عظیم مرتبے پر انکے شہید والد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو فائز ہوئے اور اپنے شہید والد کی طرح امر ہوکر انکے پہلو میں جا آرام فرما ہوئیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نامکمل مشن کو لیکر وارث بھٹو ازم سرتاج بینظیر محافظ جمہوریت ضامنِ جمہوریت بادشاہ مفاہمت نیلسن منڈیلا آف ایشیاء رئیس آصف علی زرداری شہید بھٹو اور شہید بی بی کے مشن کا الم لیکر میدان میں اترے۔

پھر وہی پرانی روایات شروع ہوئیں مقدمات جیلیں کردار کشی الزامات سازشیں لیکن عوامی لیڈر ان ہتھکنڈوں سے کہاں ڈرتا ہے زرداری صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر آغاز حقوق بلوچستان پیکج شروع کیا این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا اٹھارویں آئینی ترمیم مکمل کی ملک کی تباہ شدہ معیشت کو مستحکم بنایا اشیائے خورد و نوش سمیت تمام بحرانوں کا خاتمہ کیا پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی تھی جسکا خاتمہ کیا دنیا کے ساتھ تعلقات مضبوط کیلئے عوام خوشحال تھی ظلم نام کی کوئی چیز نہیں تھی ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی تھی۔

پھر کیا ہونا تھا عوامی دشمنوں کی نیندیں حرام ہوئیں حواس باختہ ہوئے حیران و پریشان ہوئے پھر کیا ہونا تھا ترقی و خوشحالی کی راہ میں انہوں نے پہلا روڑا اٹکایا میمو گیٹ سکینڈل بنا دیا گیا۔

غیر جمہوری قوتیں چاہتیں تھیں کہ انہیں دورانِ صدارت پھانسی دلوا دی جائے جیسے شہید زوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی لیکن اس مولائی فقیر نے کہ دیا تھا مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا کدی نئی مردا۔

تم جتنی مرضی سازشیں کروں جتنے مرضی مقدمات بناؤ جتنے مرضی ہتھکنڈے استعمال کرو جتنا ہمیں ڈرانے دھمکانے جھکانے کی کوشش کرو یہ سب تمہاری بھول ہے عوامی لیڈر جھکتے نہیں انکے سر ہمشہ بلند رہتے ہیں۔

عوامی خدمت کے مشن کو لیکر زرداری صاحب نے مفاہمت کی بنیاد رکھی جوکہ عوامی دشمنوں پر بجلی بن کر گری ماضی کے تمام اختلافات بھلا دیئے ق لیگ کو ساتھ لیا عوامی نیشنل پارٹی کو ساتھ لیا حتی کہ ن لیگ بھی اس میں شامل ہو گئی اور یہ عہد کیا کہ اب ذاتی حملے نہیں جھوٹے مقدمات نہیں کردار کشیاں نہیں صرف اور صرف عوامی خدمت ہوگی عوام کی بات ہوگی عوامی امنگوں کی ترجمانی ہوگی۔

عوامی لیڈر کسی بھی میدان میں ہارتا کیوں نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکے پیچھے کروڑوں لوگوں کی دعائیں ہوتیں ہیں آشیرباد ہوتے ہیں ماؤں بہنوں بیٹیوں نوجوانوں اور بوڑھوں کی محبتیں ہوتیں ہیں۔

کوئی بھی فیصلہ ہو بلا جھجھک ہوتا ہے کیونکہ اس میں انکے ذاتی مفادات نہیں ہوتے انکا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ عوام کیلئے ہوتا ہے تو عوامی فیصلے ڈنکے کی چوٹ پر کیئے جاتے ہیں ڈر ڈرا کر یا چھپ چھپا کر نہیں ہوتے۔

زرداری صاحب کو چودہ سال بیگناہ قید رکھا گیا دنیا کا ہر الزام لگایا گیا کائنات کے تمام مقدمات بنائے گئے تشدد کیا گیا میڈیا ٹرائل کیئے گئے لیکن انہوں نے ہر ظلم کے بعد ہر مقدمے کے بعد ہر انتقام کے بعد ہر سازش کے بعد یہی کہا کہ ایسا دل رکھتے ہی نہیں جو ٹوٹ جائے۔

الیکشن 2018 زرداری صاحب ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہو کر پارلیمان میں آئے انہوں نے اپنے خطابات میں کہا کہ میری کوئی حیثیت نہیں کوئی اہمیت نہیں عوامی مسائل کے سامنے مجھے جتنے سال جیل رکھا جتنے مقدمات بنائے جتنے مظالم کیئے جتنی کردار کشی کی جتنے ٹرائل کیئے میں انہیں پس پشت ڈال چکا ہوں آؤ ملکر عوام کے مسائل حل کریں عوامی خدمت کریں ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر لیکر جائیں۔

یہ ایک بہت بڑا اور آخری میسج تھا سمجھنے والوں کیلئے لیکن عوامی دشمن کہاں سمجھتے انہوں نے پھر اپنی روایات شروع کیں اور پھر سے زرداری صاحب کو جیل بھیج دیا جو تقریباً گیارہ ماہ جیل رہے۔

سب کچھ برداشت ہے لیکن عوامی مشکلات برداشت نہیں عوام کے خلاف سازشیں برداشت نہیں جیلیں کوڑے پھانسیاں برداشت ہیں لیکن عوامی مشکلات کسی صورت برداشت اور قابل قبول نہیں۔

پھر کیا ہونا تھا اینٹ سے اینٹ بجانے کا وقت ہو گیا زرداری صاحب متحرک ہو گئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا اور تحریک شروع کر دی جسکا نام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ رکھا گیا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے عوامی مسائل کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرنا شروع کیئے جس میں مہنگائی بیروزگاری کرپشن اور لاقانونیت کے خلاف آئین و قانون کی بالادستی جمہوریت کی مضبوطی اور بحالی کیلئے عوامی حکمرانی کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لانا شروع کر دیئے۔

عوامی بھی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے پی ڈی ایم کا ساتھ دینے نکل پڑے ملک بھر میں ہونے والے جلسوں جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت کرکے سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کو واضع پیغام دیا کہ ہم ان قوتوں کے ساتھ ہیں جو ہمارے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کریں گے۔

ملک بھر میں ضمنی انتخابات ہوئے عوام نے پورے پاکستان میں ہونے والے سات ضمنی انتخابات میں حکومت کو بدترین شکست سے دوچار کر کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی کامیابی اور اپنی ترقی کیلئے زبردست سنگِ بنیاد رکھ دیا اور پی ڈی ایم پر اعتماد کا اظہار کیا اور سلیکٹڈ حکومت کو اور انکی عوام دشمن پالیسیوں کو سلیکٹرز سمیت ریجیکٹ کر دیا۔

سینیٹ انتخابات آ گئے عوام کی دعاؤں اور جمہوری قوتوں کی وجہ سے عوامی امنگوں کی ترجمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے فتوحات حاصل کیں گیلانی صاحب کی جیت در اصل عوامی خدمت کا صلہ تھی جو انہوں نے بطورِ وزیراعظم پاکستان سرانجام دیں تھیں۔

اب آگے کا مرحلہ تھا اس سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیج کر عوامی حکومت لانا سلیکٹرز کی غلط پالیسیوں سے عوام کی جان بچانا جمہور کی منشاء کے مطابق فیصلہ سازی کرنا وغیرہ وغیرہ۔

تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے کل مورخہ 16-03-2021 کو اجلاس بلایا کہ اس نااہل اور عوام دشمن حکمرانوں سے کیسے نجات حاصل کی جا سکے۔

اجلاس سے زرداری صاحب نے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف جو کہ لندن میں موجود ہیں انہیں وطن واپس آنے کیلئے زور دیا کہ اگر لانگ مارچ کرتے ہیں تو جہاں عوام پر مظالم ہونگے جمہوری قوتیں جیلوں میں جائیں گی پاکستان میں موجود لیڈران حراساں ہونگے وہاں عوام کی بات کرنے والے بجائے لندن میں عیاشیاں کرتے رہیں انہیں پاکستان آنا ہوگا۔

اگر آپ نے عوام کی بات کرنی ہے عوامی مسائل کا حل چاہتے ہیں عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے دعویدار ہیں عوامی کا دکھ اپنا دکھ سمجھتے ہیں تو بجائے لندن میں بیٹھ کر گفتار کے غازی بننے کے کردار کے غازی بنیں اور پاکستان تشریف لائیں۔

پھر کیا ہوا عوامِ پاکستان نے دیکھا اور سنا کہ مریم نواز شریف نے کہا زرداری صاحب آپ گارنٹی دیں کہ میاں صاحب کو کچھ نہیں ہوگا تو ہم ابھی بلا لیتے ہیں۔

تو مریم بی بی عوامی لیڈر جان کی پرواہ نہیں کرتے اور جو جان کی پرواہ کرتے ہیں وہ عوامی لیڈر ہونے کا صرف راگ الاپتے ہیں انکے دلوں میں عوامی محبت نہیں ہوتی وہ صرف عوام کی بات کرتے ہوئے اپنے احداف پورے کرتے ہیں اور صرف اقتدار چاہتے ہیں وہ بھی صرف اپنے بزنس کیلئے آپ کا زرداری صاحب سے زندگی کی گارنٹی مانگنا اور میاں نواز شریف کا لندن بیٹھے رہنا جسکا ثبوت ہے۔

جنرل ضیاء نے کہا تھا ایک بار بھٹو صاحب کہ دیں میں انہیں معافی دے دوں گا تو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا عوامی لیڈر تختہ دار چومتے ہیں رینگ کر زندگی کی بھیک نہیں مانگتے۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی پرواہ نہیں۔

پوری دنیا کہ رہی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کہ پاکستان نہ جائیں جنرل مشرف نے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے لیکن شہید بی بی نے کہاں پاکستان میں میری عوام پریشان ہے اور میں یورپ میں بیٹھ کر پرسکون زندگی گزارتی رہوں یہ ناممکن ہے۔

پھر دنیا نے دیکھا محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوامی کے درمیان شہادت پائی اور تاقیامت کیلئے عوام کے دلوں میں زندہ ہو گئیں،

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔

یہ جان تو آنی جانی ہے اس خان کی کوئی پرواہ نہیں۔

پھر زرداری صاحب کو دوستوں نے کہا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے باہر چلیں جائیں لیکن انہوں نے کہا میں عوامی شخص کے مشن کا وارث ہوں عوامی لیڈر کے مشن کا امین ہوں کیسے ہو سکتا ہے جان بچانے کیلئے دیارِ غیر میں جا بسوں زندگی ہوگی یا موت ہوگی عوام کے سنگ ہوگی عوام کے ساتھ ہوگی۔

ایک بھٹو سب پہ بھاری ایک بینظیر سب پہ بھاری کی طرح ایک زرداری بھی سب پہ بھاری ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

مسائل کا حل صرف پیپلزپارٹی ۔۔۔انور خان سیٹھاری

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

پاکستان کی تباہی میں عدلیہ کا کردار ۔۔۔انور خان سیٹھاری

About The Author