نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا:||ملک سراج احمد

اسی غزل میں افتخار عارف کا ایک شعر ہے کہ نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو ، مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گااور مولانا کے مطابق اگر لانگ مارچ کو کامیاب کرنا ہے تو سندھ مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ بہرحال کرنا پڑے گا وگرنہ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخابی نتائج پر سب سے مکمل تبصرہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کیا کہ انتخابی نتائج کو سینہ زوری سے بدلا گیا ہے تاہم اس کی وضاحت نہیں کی کہ اتنی سینہ زوری کون کررہا ہے اور یہ بھی وضاحت طلب بات ہے کہ سینہ زوری کیوں کی جارہی ہے۔جو بھی حالیہ سینیٹ الیکشن میں ہوا اس سے کسی طور جمہوریت کا فائدہ نہیں ہوا۔اور جمہور یہ بات سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ موجودہ جمہوریت بنیادی طورپر ایک لبادے کی حیثیت رکھتی ہے۔جس نے بھی یہ لبادہ اوڑھ رکھا ہے اس کے متعلق بھی یہ جمہور بخوبی جانتی ہے ۔ماضی میں اس کا تذکرہ زیر لب ہوتا تھا تاہم اب تو کھلے عام تذکرہ ہورہا ہے ۔گویا عہد جدید کی محبت ہی ہوگئی کہ پہلے محبوب کا نام اشاروں کنائیوں میں لیا جاتا تھا مگر اب سرعام کیمروں کے سامنے پھول دے کر محبت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔

آج ایک بارپھر پی ڈی ایم کے بڑوں کی بیٹھک ہونے جارہی ہے جس میں 26 مارچ کے مہنگائی مارچ سے متعلق خدوخال پر بات ہوگی تاہم اس سے قبل پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بیان سامنے آچکا ہے کہ اجتماعی استعفوں کے بغیر مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔گویا مولانا نے پی ڈی ایم کے شرکا کو پہلے ہی اپنا مدعا معروف شاعر افتخار عارف کی زبان میں بیان کردیا ہے کہ گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا،جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا۔
اسی غزل میں افتخار عارف کا ایک شعر ہے کہ نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو ، مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گااور مولانا کے مطابق اگر لانگ مارچ کو کامیاب کرنا ہے تو سندھ مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ بہرحال کرنا پڑے گا وگرنہ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

افتخار عارف کی حسب حال غزل کا ایک اور شعر ہے کہ مبادا قصہ اہل جنوں ناگفتہ رہ جائے ، نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا اور شاید آج پی ڈی ایم کو اس کی اشد ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی ہی میں کچھ الگ کرنے جارہے ہیں تو بہرحال ان کو اپنا لب ولہجہ بدلنا پڑے گا تب جاکے حالیہ مضمون میں تبدیلی کے امکانات تلاش کیئے جاسکتے ہیں اگر پی ڈی ایم پرانے بیانیے کے ساتھ ہی میدان عمل میں اترتی ہے تو اس ساری کوشش کا شاید کوئی فائدہ نا ہو۔جمہوری نظام میں رہتے ہوئے جمہوری جدوجہد کا بیانیہ اپنی جگہ پر معتبر سہی مگر سینہ زوری کی گئی کے بیان کے بعد اس نظام کے بقا کی کتنی گنجائش باقی رہ گئی ہے اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک بات جمہوری اخلاقی قدروں کی ہے تو جس طرح گیلانی اقلیت ہونے کے باوجود منتخب ہوگئے اسی طرح سنجرانی بھی اقلیت ہونے کے باوجود منتخب ہوگئے ۔نہلے پر دہلا پڑ گیا لہذا کس سے گلہ کیا جائے کس سے منصفی مانگی جائے۔اس سے بھی قطع نظر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب پی ڈی ایم کا بیانیہ ہی یہی ہے کہ موجودہ اسمبلی دھاندلی کی پیداوار ہے اور حکومت کی سلیکشن ہوئی ہے تو پھر اس اسمبلی میں بیٹھنے کا استدلال بے معنی اور غیر حقیقی ہے۔اور اگر سینہ زوری کا بیان محض سیاسی بیان ہے اوراگر موجودہ جمہوری نظام کی بقا ہی مطمع نظر ہے تو پھر پی ڈی ایم میں موجودگی کا کیا جواز ہے۔کچھ تو ہے جو غلط ہے اور اس کو اب ٹھیک ہونا چاہیے۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا اور نئے انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں اور یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اگر نئے انتخابات کی صورت میں موجودہ حکمران اپوزیشن میں آکر سڑکوں پر آگئے تو کیا ہوگا۔مطلب ڈھاک کے وہی تین پات اور پھر اس وقت بے چاری عوام کا کیا بنے گا۔

رہی بات حکومت کی تو موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے عوام کس قدر مطمئن ہے اس کا اندازہ حالیہ ضمنی انتخابات سے کیا جاسکتا ہے ۔ کمرتوڑ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔بجلی اور گیس کے بلوں کو ادا کرنے کی سکت نہیں رہی اور دو وقت کا کھانا مشکل ہوگیا ہے ۔ قرض پر قرض لیتی حکومت کے معاشی اعشاریے جس قدر بہتر ہوں اصل بات یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی کب بہتر ہوگی۔متوسط طبقہ کب سکون کا سانس لے گا۔حکومت کچھ تو ایسا کرئے کہ جس سے اطمینان ہو کہ بہتری ہورہی ہے۔کرنٹ اکاونٹ خسارے کی کمی سے عام آدمی کا کیا لینا دینا ہے۔بیرونی اور اندرونی قرضوں کی کیا کیفیت ہے اور ریونیو کلیکشن کتنی ہورہی ہے اس سے ایک غریب اور متوسط آدمی کو کیا سروکار ہوسکتا ہے۔ایک گلی میں موجود پرچون فروش یا دیہاڑی دار کو اس سےکیاغرض ہے کہ پاکستان فیٹیف سے بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا ہے اور فی الحال گرے زون میں ہے۔

مرے پہ سو درے مزید یہ کہ بدترین معاشی حالات کے بعد کورونا کی نئی لہر سے ایک بار پھر کاروباری مراکز بند کرانے کا شیڈول جاری ہوچکا ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ ایس اوپیز پر عمل درامد کو یقینی بنایا جاتا مگر کاروباری مراکز بند نا کرائے جاتے ۔یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ کورونا پھیلنا شروع ہوتو سکولز اور کاروباری مراکز بند کرانا شروع کردئیے۔اور جتنی دیر کاروباری مراکز کھلتے ہیں وہاں پر ایس اوپیز کے نام پر سارا دن انتظامیہ جرمانے کرتی ہے۔حکومتیں عوام کوریلیف دینے کے لیے ہوتی ہیں یا پھر انتقام لینے کے لیئے ہوتی ہیں۔

انتقام سے یاد آیا کہ مبینہ طورپر تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی کا نام آرہا ہے کہ اس کی ایما پر تونسہ بیراج کے قریب ایک جنگل کو آگ لگادی گئی۔بلین ٹری سونامی کا ایجنڈا لے کر آنے والی جماعت کے سربراہ کو اطلاع ہو کہ ظل الہی زرا توجہ فرمائیں اس جنگل کی طرف جہاں اب تک ہزاروں درخت جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔یہ کوئی محکمانہ غفلت ہے یا کوئی جرم اس کی فوری تحقیقات ہونی چاہیے اور جو زمہ دار ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے۔
تحریر:ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author