حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد شمس الدین حافظ شیرازی، محمد ان کا نام ہے، شمس الدین لقب اور حافظ تخلص۔ صاحبان علم کی محبوب شخصیت تھے ہیں اور رہیں گے ۔
ایک زمانے تک (اور گاہے اب بھی) آپ کے کلام سے فال نکالی جاتی رہی۔ 726 ہجری میں جب حافظ شیرازی پیدا ہوئے تو ایران میں شیخ سعدیؒ کی شاعری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا
ایسے میں کسی نئے آہنگ کو منوانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ شیراز کی مٹی بڑی زرخیز ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک صاحب کمال۔ یکتائے علم و دانش نے اس شہر کی فضا میں آنکھ کھولی۔
مُلا بہاء الدین، مُلا صمد الہادی، حکیم احمد ذبیح، قاضی بضد اور قاضی اسماعیل کا شمار حافظ شیرازی کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔
ایک رویات کے مطابق آیت اللہ محمد عبداللہ شیرازی سے بھی فیض پایا۔ محمد عبداللہ شیرازی اپنے وقت کے بلند پایہ فقیرومفسر قرآن تھے۔
حافظ شیرازی نے بچپن سے نکل کر جوانی اور سن شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو اپنے اردگرد کے حالات کو ابتر محسوس کیا۔ مسلکی منافرتیں، درباریوں کی سازشیں، بغاوتیں، قیامت خیز خانہ جنگیاں دیکھتے ہی دیکھتے حالات کی یہ ابتری سات بادشاہوں کو نگل گئی۔
انسان کشی کے اس کھیل نے انہیں دنیا کی چمک سے متنفر کردیا۔ حافظ اپنے وجدان کی دکھائی راہ پر چل نکلے اور علم و ادب کی دنیامیں اپنے لہو سے چراغ جلانے لگے۔
’’جب تو ہمارے نعش کے پاس سے گزرے تو خاک و خون سے دامن بچائے رکھنا کیونکہ اس راستے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تجھ پر قربان ہوگئے‘‘۔
حافظ شیرازی نے ہی کہا تھا ’’جو حق کو سمجھنے اور حق پر ڈٹ جانے کا حوصلہ نہیں کرتے ان کے سر میدانوں کی دھول سے اٹ جاتے ہیں‘‘۔
65سال کی عمر میں حیاتِ ابدی کے سفر پر وہ 791ہجری میں روانہ ہوئے مگر ان 65برسوں کے دوران انہوں نے علم و ادب کو جتنا کچھ دیا اس نے حافظ شیرازی کو تو یاد رکھا مگر لوگ بھول گئے کہ وہ سات بادشاہ کون تھے جن کو حافظ نے تخت سے قبرستان تک کا سفر پورا کرتے دیکھا۔
حافظ شیرازی نے قصیدہ، قطعہ رباعی میں بھی طبع آزمائی کی اور اس میدان کے شہسواروں کو پچھاڑ کے رکھ دیا مگر وہ غزل کی دنیا کے شہنشاہ کہلائے اور یہی ان کا اصل میدان بھی تھا۔ اس میدان میں کوئی اور ان کا ہمسر تھا نہ ہے۔
فارسی زبان کے تین بڑے شاعروں نظیر، عرفی اور قرۃ العین نے اپنے اپنے عہد میں حافظ کے علم و کمال، دانش اور آہنگ کو بطور خاص سراہا۔
قرۃ العین تو ایک موقع پر یہ کہہ اٹھیں حافظ شیرازی کے فقط ایک شعر پر پوری زندگی قربان کی جاسکتی ہے۔
زروئے دوست دلِ دشمناں چہ دریا بد
چراغِ مُردہ کُجا شمعِ آفتاب کُجا
’’رقیبوں کا دل دوست کے جمال رخ سے کیا حاصل کرسکتا ہے؟ بجھے ہوئے چراغ کو سورج کی شمع سے کیا فائدہ پہنچے گا‘‘۔
حافظ شیرازی رح کہتے ہیں
’’مجھے ڈر ہے کہ اعمال کی اچھائی برائی جانچنے کے دن شخ حلال روٹی ہمارے حرام پانی (شراب) سے بازی نہیں لے جائے گی‘‘
یا پھر یہ کہ ’’ہم نے تو تیرے آستانے کی مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بنارکھا ہے تو ہی فرما کہ اس بارگاہ کو چھوڑ کر ہم کہاں جائیں‘‘۔
” عبادت خانے اور ریا کے لباس سے میرا دل بیزار ہوگیا ہے مجھے بتائو کہ آتش پرستوں کا معبد کہاں ہے اور خالص شراب کہاں ملتی ہے‘‘۔
’’کیا ہماری آگ برسانے والی آہ اور راتوں کی فغاں کا سوزکسی شب تیرے پتھر جیسے دل میں بھی اثر کرے گا؟‘‘
راز درونِ پردہ زرندانِ مست پُرس
کیں حال نیست صوفی عالی مقام را
’’پردے کے اندر کا بھید مست رندوں سے پوچھ کیونکہ بلند مرتبہ صوفی کو یہ مقام حاصل نہیں‘‘۔
یہ حافظ ہی کہہ سکتے تھے کہ
’’ہم اس کے مرید کعبے کی طرف منہ کس طرح کریں، جب ہمارے مرشد کا منہ شراب فروش کے گھر کی جانب ہے‘‘۔
ہم دکھی ہیں، خشک منہ، پیاسے لب اور آنسوئوں سے تر آنکھیں ہمارے دل کی جلن کا پتہ دے رہی ہیں‘۔ امید کی صبح جو غیب کے پردے میں اعتکاف نشین تھی اس سے کہہ دو کہ طلوع ہوجائے کیونکہ اندھیری رات کا کام تمام ہوگیا‘‘۔
’’زمانے کی بدعہدی سے مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ دوست کی بدولت غم کی کہانی ختم ہوچکی ہے‘‘۔
عشق کے کوچہ میں رہنما کے بغیر قدم نہ رکھو کیونکہ جس شخص کو اس راستے میں کوئی راہبر نہ ملا وہ گم ہوگیا‘‘۔ ’’تو شراب پی لے اور سنہری پیالہ صرفی کے حوالے کردے کیونکہ بادشاہ نے لطف و کرم سے کام لیتے ہوئے صوفیوں کے گناہ بخش دیئے ہیں‘‘۔
جلوۂ گردخش روز اول زیرِ نقاب
عکسے از پر تو آں بررُخ افہام افتاد
’’ازل کے دن اس کے چہرے نے نقاب کے نیچے جلوہ دکھایا، اس کی جھلک کا عکس عقل کے چہرے پر پڑ گیا‘‘۔
یہ بھی حافظ ہی ہیں کہ
’’اس کے غم میں تلوار کے نیچے ناچتے ہوئےجانا چاہیے کیونکہ جو کوئی اس کے ہاتھ سے مارا گیا، اس کا انجام نیک ہوا‘‘۔
حافظ شیرازی نے ہی کہا تھا ’’تیرا عشق میرے وجود میں اور تیری محبت میرے دل میں ہے، یہ دونوں چیزیں دودھ کے ساتھ اندر داخل ہوئیں اور جان کے ساتھ باہر نکلیں گی‘‘۔
رقیب درگزر و بیش ازیں مکن نخوت
کہ ساکنان در دوست خاکسار انند
’’اے رقیب بس بس، اس سے زیادہ گھمنڈ نہ کر کیونکہ دوست کے دروازے پر رہنے والے خاکسار ہوتے ہیں‘‘۔
حافظ کے بقول’’جس کارخانے میں علم اورعقل کو راہ نہیں ملتی وہاں کمزور وہم اور بیہودہ رائے کا کیا کام ہے‘‘۔ اگرچہ تیرا حسن غیر کے عشق سے بے نیاز ہے لیکن میں وہ نہیں کہ اس عشق بازی سے باز آجاوں‘‘۔
بہ نیم شب اگرت آفتاب می باید
زروئے دُخترِ گلچہرزنقاب انداز
’’اگر تو چاہتا ہے کہ آدھی رات کو سورج نکل آئے تو انگور کی گل عذرا بیٹی (شراب) کے چہرے سے نقاب اٹھادے‘‘۔ حافظ کہتے ہیں
’’میں ان بے سروپا رندوں کی ہمت کا غلام ہوں جن کے نزدیک دونوں جہان گھاس کے تنکے جتنی بھی قدروقیمت نہیں رکھتے‘‘۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر