عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پیپلزپارٹی میں ایک رجحان اور بھی تھا جو بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ بيگم نصرت بھٹو کی جانب سے جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو ملاکر ایم آر ڈی کی تشکیل کرنے کا بھی سخت مخالف تھا اور وہ پی پی پی کی جانب سے عدم تشدد پہ مبنی سیاسی پالیسی کی بھی شدید مخالفت کررہا تھا۔ اس رجحان کے حامل مرتضی بھٹو شہید کی مسلح جدوجہد کو تحسین کی نظر سے دیکھتی تھی اور یہ منصوبہ بند معشیت اور امریکی سامراجیت کی شدید مخالف تھی۔ یہ انتہا پسندی کی حد تک جانے والے لوگ تھے اور یہ بے نظیر بھٹو پہ عالمی سطح پر سامراجیت کے آگے سرنڈر کرنے اور ملکی سطح پر جاگیرداروں سے مل جانےکا الزام عائد کرتے تھے۔ اس گروہ کی قیادت پنجاب میں ڈاکٹر مبشر حسن کررہے تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی میں لیفٹ کا نسبتا ایک نیا رجحان بھی تھا جس کی تعمیر کرنے والوں کا نمایاں کاڈر یورپ میں جلاوطن ہوجانے والے ان نوجوان جیالوں کا تھا جو وہاں جاکر نئے مارکس واد و سماج واد رجحانات سے واقف ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر لوگ ٹراٹسکائٹ رجحان کے حامل تھے۔ یہ اپنے آپ کو مارکس واد(مارکسسٹ) کہتے تھے۔ جب یہ لوگ پاکستان میں تھے تو ان کی زیادہ تر تعداد یونیورسٹیوں میں پڑھا کرتی تھی اور ان میں سے اکثر وبیشتر بھٹو کے ڈائی ہارڈ کاڈر تھے۔ بھٹو کی پھانسی کا ان پہ سخت اثر ہوا تھا اور یہ مارشل لا حکومت کومطلوب تھے اور مفرور تھے اور بڑی مشکلات سے یورپ جانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور وہاں پہلی بار یہ ٹراٹسکی ازم سے روشناس ہوئے اور یہ فورتھ انٹرنیشنل ورکنگ مین ایسوسی ایشن کا حصّہ تھے اور اس کی ایک سپلٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مارکسزم کا بین الاقوامی رجحان/آئی ایم ٹی)کا حصّہ بنے ان میں بیلجیم جانے والوں میں ڈاکٹر لال خان بھی تھے – پاکستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے جلاوطن ان لوگوں نے ایک طرف تو یورپ اور امریکہ میں پی پی پی کی تنظیموں میں اپنی شمولیت اختیار کی اور ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں بھی آئی ایم ٹی کو منظم کرنا شروع کردیا۔ آج سے قریب قریب 38 سال پہلے یہ لیفٹ کا وہ رجحان تھا جو خود کو پی پی پی میں سوشلزم کی آواز کہتا تھا اور اس کا رسالہ "جدوجہد” شایع ہونا شروع ہوا۔ اس رجحان نے پی پی پی کی قیادت کی جانب سے پارٹی کے بنیادی منشور میں شامل سوشلزم ہماری معشیت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہے کو سامنے رکھتےہوئے بے نظیر بھٹو کی جانب سے سوشلسٹ معشیت سے تھیچر ازم اور ریگن ازم کی طرف مڑجانے پر تنقید کی اور ایسے ہی امریکی سرمایہ دار بلاک کی طرف جھکاؤ کے خلاف بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس رجحان کا تجزیہ یہ تھا کہ پی پی پی کا منصوبہ بند سوشلسٹ معشیت سے انحراف اور سامراجی کیمپ میں شمولیت لامحالہ اسے ملک میں ویسا ہی سڑکچرل ایڈجسمنٹ اصلاحاتی پروگرام اپنانے اور سامراجی سرمایہ دارانہ جنگوں اور تصادم کا حصّہ بننا پڑے گا۔ اس سے محنت کش طبقہ اور کسان طبقات کو پی پی پی سے بے گانہ کردے گا۔ اس گروپ کا زور اس بات پہ تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو نہ تو پاکستان کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے مصالحت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے عالمی سامراجی سرمایہ داری قوتوں سے سے سمجھوتہ کرنا چاہیے۔
پاکستان پیپلزپارٹی میں جو پرانا لیفٹ کا باقی حصّہ تھا ایک تو اس نے نئے خون پر زیادہ توجہ مرکوز نہ کی، دوسرا اس کے سرکردہ رہنماء رفتہ رفتہ پاکستان پیپلزپارٹی کے فیصلہ ساز تنظیمی باڈیوں سے نکلتے چلے گئے۔ شیخ رشید احمد جو 1988ء میں بمشکل پورے پاکستان سے 17 ایم این ایز اور 25 کے قریب پنجاب میں ایم پی ایز کے ٹکٹ اپنے ساتھ جڑے لوگوں کو دلوانے میں کامیاب ہوئے تھے 1990ء اور 1993ء میں یہ تعداد کم ہوکر تین سے چار رہ گئی اور وہ بھی بعد ازاں آہستہ آہستہ پچھلی صفوں میں چلے گئے۔ اس دوران اس لیفٹ حصّے نے نہ تو پارٹی کے اندر بطور لیفٹ اپوزیشن اپنے آپ کو یونٹ سطح پر منظم کیا اور نہ ہی اس کے رجحان کا پروپیگنڈا کرنے کے لیے کوئی پرسپیکٹو سامنے آیا۔ نہ ہی کوئی ماہانہ پروپیگنڈا اخبار سامنے آیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جب 1986ء میں وطن واپس آئیں اور پی پی پی مقبولیت کی حدوں کو چھونے لگیں تو اسی دوران ایم آر ڈی میں شامل بائیں بازو کی جماعتوں جن میں قومی محاذ آزادی، پاکستان نیشنل پارٹی(پی این پی)، مزدور کسان پارٹی(ایم کے پی)اور ان کے طلباء ونگز سے بہت سا کاڈر پی پی پی میں شامل ہوگیا۔ ان میں قومی محاذ آزادی پنجاب اور سندھ اور این ایس ایف (لطیف چودھری گروپ) کے کئی نامور نام شامل تھے۔ ان میں امیر حیدر کاظمی 88ء میں ایم این اے کراچی سے منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر بھی بنے۔ امیر حیدر کاظمی نے بھی کراچی ڈویژن میں خاص طور پر اردو اسپیکنگ اکثریت آبادی میں پی پی پی یں لیفٹ نظریات کی ترویج کا مشن سنبھالا۔ لیکن آخرکار ان میں سے اکثریت تو محض نرے لبرل ترقی پسند بن کر رہ گئے اور ویسے نام لینے کو یہ کبھی کبھار سوشلسٹ نعرے بازی کرلیتے تھے۔
ایسے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر سرائیکی خطے سے لیفٹ سے جڑا ایک اور عنصر بھی شامل ہوا جن کے ہاں بائیں بازو سے زیادہ سرائیکی قوم پرستانہ رجحان غالب تھا اور بعد ازاں اس نے بتدریج خود کو لیفٹ شناخت سے دور کرتے ہوئے قومی سوال پہ مارکس واد اپروچ کی بجائے قوم پرستانہ اپروچ اختیارکی- یہ عنصر بس پنجاب اور کے پی کے کے سرائیکی اکثریت کے علاقوں کو ملاکر الگ صوبہ بنانے پر زور دیتا تھا۔ اس نے سانجھ کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور اس کے ہاں سے جو لٹریچر اور مواد سامنے آیا وہ زیادہ تر سرائیکی قوم پرستی سے متعلق تھا۔
مجموعی طور پر ان نظریاتی رجحانات سے ہٹ کر جو پاکستان پیپلزپارٹی کا عام منجھا ہوا سیاسی کارکن تھا، اس کی اکثریت نظریاتی محاذ پر جو پی پی پی کی قیادت کہہ رہی تھک یا کررہی تھی اس کی پیروی کی اور اس کے خلاف کوئی مزاحمت سرے سے نہ کی۔ زیادہ سے زیادہ یہ اکثریتی کارکن "بھٹو ازم منزل ہے- بے نظیر رہبر ہے” جیسے نعروں کے ساتھ سامنے آیا۔ اس منجھے ہوئے عام سیاسی کارکن کو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے یہ شکایت پیدا ہونے لگی تھی کہ پارٹی کی مرکزی و صوبائی اور ضلعی تنظیموں میں اور پارٹی کی پارلیمانی قوت میں ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو بے دخل کیا جارہا ہے اور پارٹی کی تنظیمیں پارلیمانی اراکین اور ٹکٹ ہولڈرز کے قبضے میں جارہی تھیں اور بھٹو خاندان کی قیادت تک ان کی رسائی کا معاملہ مشکل تر ہوجارہا ہے۔ جنرل ضیآء الحق کے اخری دور میں پی پی پی کے ڈائی ہارڈ جیالوں نے "اینٹی پجارو گروپ” بنایا اور ورکرز بچاؤ تحریک بھی چلائی اور اس کا ایک نعرہ بہت مقبول بھی ہوا
ضیاء بھی مارے، تم بھی مارو
ہائے پجارو۔ ہائے پجارو۔
لیکن حقیقت حال یہ تھی کہ ایسے سیاسی کارکن نہ تو پی پی پی کے سرکاری تنظیمی اداروں میں جگہ بناسکے اور نہ ہی وہ رسائی کے مسئلے کو حل کرواسکے۔
ایسے میں یہ جو آئی ایم ٹی تھی اس نے جو جدوجہد کے نام سے شروع کیا اسے پی پی پی میں خود کو سوشلسٹ اور مارکسسٹ سمجھنے والے کارکنوں کی حمایت ملی، وہیں اس کے اندر کئی ایک نئے جوان مرد و خواتین شامل ہونا شروع ہوگئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر