ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سنبھل کے بیٹھیے، آ رہی ہیں مردوں کی دشمن”
” انہوں نے عورت کی بے مہار آزادی کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے”
” دیکھتے ہی ڈر لگتا ہے کہ جانے کیا کہہ دیں۔ تحریری کلاس لینے میں تو بہت ماہر ہیں”
” سادہ لوح عورتوں کو پٹیاں پڑھا کے خراب کر رہی ہیں “
” اپنی بیویوں کو ان سے دور ہی رکھو، عورت کا مقام وہی ہے جو مرد یا معاشرہ متعین کرتا ہے”
“مرد کی بہت بڑی دشمن اور مخالف”
جس دن ان تنقیدی بیانات میں خواتین بھی شامل ہوں ہمارا بے اختیار نیویارک کی پروفیسر کیٹ مین کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے۔ کیٹ نے خواتین کے اپنے حقوق کی پامالی کے باوجود مردوں پہ اس طرح سے صدقے واری ہو جانے کو ” Himpathy ” کا نام دیا ہے۔
مرد و عورت کلینک میں داخل ہوتے ہیں، آگے آگے چھاتی تانے مرد، پیچھے سر جھکائے عورت!
مرض کی تشخیص کے لئے ہر سوال کا جواب محترم شوہر کبھی استہزائیہ اور کبھی طنزیہ انداز میں دیتے ہیں۔ زیر لب بڑبڑاہٹ کے ساتھ چہرے پہ بھی لکھا نظر آتا ہے کہ اس کو کچھ نہیں پتہ جی!
یہ ہے وہ منظر جو نہ صرف ہمیں سوچنے اور احتجاج کرنے پہ اکساتا ہے بلکہ پس منظر میں ان کی سوچ کے سب زاویے ہماری آنکھوں کے سامنے تصویریں بنانے لگتے ہیں۔
” یہ عورت میری ملکیت کے طور پہ مجھے دی گئی ہے سو اختیار میرے ہاتھ میں ہے کہ یہ عورت کہاں اور کیسے رہے گی؟ کس سے ملے گی اور کس سے نہیں؟ پڑھی لکھی ہے تو نوکری کرے گی یا نہیں؟ کتنے بچے پیدا کرے گی؟ کیا پہنے گی؟ سسرال میں کس کس کی خدمت کرے گی؟ کھانے میں کیا کھائے گی ؟ میکے کس حد تک جا سکے گی؟ عیدوں پہ ماں باپ سے ملنا ہو گا کہ نہیں؟ اپنے بہن بھائیوں کی خاطر مدارات کر سکے گی کہ نہیں؟ اپنے بہن بھائیوں کی خوشیوں میں شریک ہو گی کہ نہیں؟ دوستوں سے ملنے کی اجازت ہو گی کہ نہیں؟ فون اٹھانے کی اجازت؟ ہنسنے پہ برا تو مانا نہیں جائے گا؟ نند دیور کا کہا ہر وقت مقدم ہو گا۔
ہم اپنے آپ سے سوال پوچھتے ہیں۔
ہماری آنکھ جو کچھ دکھاتی ہے اور ذہن جو سجھاتا ہے وہ کرب وہ تلخی اوروں کے رگ وپے میں کیوں نہیں اترتی؟
ہم معاشرے کے باقی افراد کی طرح اس ظلم اور تعفن کے ڈھیر سے منہ موڑ کے، اپنی زندگی میں گم ہو کے کھلکھلا کیوں نہیں سکتے؟
ایسے بہت سے مردوں کی مثال دیکھ کے ہم کیوں نہیں بہل جاتے جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے اور درد محسوس ہوتا ہے۔
ہمیں مردوں کا دشمن کیوں سمجھا جاتا ہے؟
کیا پدرسری نظام کا طاقت اور اختیار کو مرد کے پلڑے میں ڈالنا، عورت کے ان حقوق کا ذکر کرنا جو کبھی دیے ہی نہیں گئے، مرد سے نفرت یا دشمنی ہے یا نظام کی گنجلک تہوں کو کھولنے کی ایک کوشش؟
چلیے دیکھے لیتے ہیں کہ آخر یہ پدرسری نظام ہے کیا؟
پدرسری نظام کی جڑیں چھ ہزار برس پہلے کے معاشروں سے پھوٹتی نظر آتی ہیں جب ملکیت کے تصور نے جنم لیا۔ اس سے قبل ہر فرد مساوی حیثیت کا حامل تھا۔ اس نظام نے وقت کے گھومتے پہیے کے ساتھ عورت کو معاشرے کی تشکیل سے خارج کرتے ہوئے افزائش نسل کا کردار تھما کے بنیادی دھارے سے خارج کر دیا۔
قدیم یونان میں مشہور فلسفی ارسطو نے عورت کی ذہنی اور اخلاقی سطح مرد سے ارزاں گردانتے ہوئے اسے مرد کی ملکیت قرار دیا اور یہ بھی کہ عورت کی زندگی کا مقصد نسل انسانی کو آگے بڑھانا اور مرد کی ہر طرح سے اطاعت کرنا ہے۔ ارسطو کے مطابق عورت کی قوت فیصلہ اس قابل نہیں کہ اسے معاشرے میں کوئی قابل ذکر مقام دیا جائے۔
محترم ارسطو کے ان ارشادات کو اگر طبی اور بائیالوجی کے معیار پہ پرکھیں تو ہم سمجھ نہیں پاتے کہ دونوں کے جسم اور دماغ کی بناوٹ میں فرق ہے کیا؟ جنسی اعضا کو چھوڑ کے باقی تمام اعضا کی بناوٹ میں کوئی فرق نہیں، دماغی اہلیت میں کمی بیشی نہیں، سوچ کی اڑان اور تخیل میں کمتری یا برتری نہیں۔
قدیم چین کے مشہور فلسفی کنفیوشس کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا تھا کہ ایک اچھی عورت شادی سے پہلے باپ کی تابعدار، شادی کے بعد شوہر کی اطاعت گزاراور وفادار اور بڑھاپے میں بیٹے کے حکم کے تابع ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ اسے محنتی، زبان پہ کنٹرول اور وضع و قطع میں میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔
کنفیوشس صاحب نے ارسطو کے طرز عمل پہ چلتے ہوئے عورت کو ایک ایسے دائرے میں مقید کرنے کی بات کی جس کی حد بندی مرد کرتا ہے، کتنا بڑا دائرہ، اور دائرے کو پار کرنے کی سزا کی صوابدید پدرسری نظام کے بنیادی مہرے کے پاس!
سو یہ ہے وہ پدرسری نظام جس نے عورت کو تابع دیکھنے کے اصول صدیوں پہلے وضع کیے، انہیں ہر معاشرے کی بنیادوں میں بھرا اور انہی کا نتیجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کی عورت بھی انہی پیمانوں پہ ناپی اور تولی جاتی ہے۔
اب دیکھئے غیر شعوری طور پہ عورت کے دماغی نیورونز کس چیز پہ ایمان لائے بیٹھے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق حاملہ عورت کو جونہی بچے کی صنف کا پتہ چلتا ہے وہ اسے ایک مختلف کردار کے طور پہ دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔
“بچے کی حرکت بہت سہج سے ہوتی ہے، آہستہ آہستہ …. لڑکی ہے نا”
“اف، میرے پیٹ میں جیسے زلزلہ سا آیا ہوا ہے، مکے اور لاتیں ہر وقت….. لڑکا جو ہوا”
ضروری ہے کہ یہاں ہم آپ کوروسی سائنس دان پیولوو کی کہانی سنائیں۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی چیز کی یاد کسی خاص واقعے یا حرکت سے وابستہ ہو جائے تو پھر ہر دفعہ اس یاد سے جسم و ذہن ایک خاص نہج پر ہی سوچیں اور ایک ہی طرح کا ردعمل دیں۔
مثال کے طور پہ اگر کسی کا دل گول گپے کھانے کوچاہے تو گول گپوں کا نام لیتے ہی منہ میں پانی کیوں آجاتا ہے جبکہ وہ تو سامنے موجود نہیں۔
اسی طرح ساون کا نام لیتے ہی خاص قسم کے پکوانوں کی یاد آ جاتی ہے۔ اور تو اور کبھی کبھار کوئی ایسا گیت جس سے کوئی خاص یاد وابستہ ہو، سنتے ہی دل کی دھڑکن تیز اور سانس اتھل پتھل ہو جاتی ہے۔
اس بات کو ثابت کرنے کے لئے پیولوو نے اپنا تجربہ کتوں پہ کیا۔ اس کا مشاہدہ تھا کہ جب کتوں کو غذا دی جاتی ہے تو ان کا منہ خوشبو سونگھتے ہی لعاب دہن سے بھر جاتا ہے۔ پیولوو نے غذا دیتے وقت ساتھ میں گھنٹی بجانا شروع کی۔ کچھ دنوں میں ہی کتوں نے جان لیا کہ غذا کے ساتھ گھنٹی کا سمبندھ ہے۔
اگلے مرحلے میں کتوں کو غذا دیئے بغیر گھنٹی بجائی گئی۔ چونکہ کتے گھنٹی کے ساتھ غذا کو جوڑ چکے تھے سو گھنٹی کی آواز سنتے ہی کتوں کے منہ میں ویسے ہی لعاب دہن پیدا ہوا جیسے غذا کو دیکھ یا سونگھ کے ہوتا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ انسانی ذہن جب کسی ایک بات کو دوسری بات سے منسلک کر لیتا ہے تو جواباً دماغ کا ردعمل ہر دفعہ ویسا ہی ہوتا ہے چاہے بنیادی بات نہ بھی ہو۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ گول گپوں کا نام سنتے ہی منہ میں پانی کیوں بھر آتا ہے ؟
پدرسری نظام نے پیولوو کے اسی اصول کے تحت مرد کی صلاحیتوں اور کردار کو طاقت، اختیار، برتری، ذہانت اور عقل کل کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ جبکہ عورت کو نحیف، قوت فیصلہ میں کجی اور ناقص العقل قرار دیتے ہوئے گھر میں مقید کرتے ہوئے اس کی صلاحیتوں کو کمتر قرار دیا ہے۔
صدیوں سے ان خیالات کو اس قدر سینچا گیا ہے کہ عورت کا نام سنتے ہی تھر تھر کانپتی چڑیا کا تصور ذہن میں آتا ہے اور مرد کے کردار میں ایک اعلیٰ وارفع قسم کی مخلوق، جسے حکومت کرنے اور فیصلہ سازی کا حق پیدائشی طور یا بائی ڈیفالٹ حاصل ہے۔
کس کو یہ اتفاق نہیں ہوا کہ سڑک پہ کوئی گاڑی اگر آہستہ چل رہی ہو، یا اگر کوئی معمولی غلطی کر جائے، تو چہار اطراف سے اسی طرح کے جملے سننے کو ملیں،
” شرط لگا لو، اس گاڑی کو چلانے والی عورت ہے”
اسی طرح عورت ڈاکٹر کی لیاقت اور کارکردگی پہ شبہ کرتے ہوئے کارڈیالوجی اور نیورو سرجری میں سپیشلائز کرنے کا موقع یہ کہتے ہوئے نہیں دیا جاتا کہ وہ ایمرجنسی میں اپنے حواس قابو میں نہیں رکھ سکتیں۔
پیولوو کے تجربے کے مطابق عورت کی اخلاقیات کے پیمانے بھی متعین کر دئیے گئے ہیں۔ اچھی عورت کے پیمانے میں غیر مشروط اطاعت، حقوق سے دستبرداری اور منہ پہ تالہ بندی کو اس طرح سے منسلک کر دیا گیا ہے کہ جو عورت اس حد بندی سے باہر نکل کے سوال پوچھنا چاہے گی کہ جنیاتی اور طبعی طور پہ دونوں میں کوئی فرق نہیں، پھر افضل اور کمتر کی بحث کیوں؟ وہ عورت مرد دشمن کے تمغے کی مستحق ٹھہرے گی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اسے دلچسپ کہیں یا دل خراش کہ پدرسری نظام، معاشرہ اور کلچر کی ہر شق پہ مرد تو آنکھیں بند کر کے ایمان لاتے ہیں مگر ایسی عورتوں کی بھی کمی نہیں جو ہنسی خوشی اس پل صراط پہ چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ عورت کو بچپن سے باور کرا دیا جاتا ہے کہ سند پسندیدگی حاصل کرنی ہے تو اسی دائرے میں رہو جو اس کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ پیولوو کے تجربے کے اصولوں کے تحت تابعداری، فرمانبرداری اور وفاداری کی گھنٹی عورت کو اسی طرح مطیع کرتی ہے جو مالک نے ترتیب دیا ہے۔
ہاں ہوتی ہیں کچھ ایسی سرپھری بھی جن کو یہ خیال آ جاتا ہے کہ گھنٹی ایک مخصوص وقت پہ کیوں بجتی ہے اور گھنٹی بجانے کا فائدہ کسے حاصل ہوتا ہے؟
سوال پوچھنے اور پدرسری نظام کی بدصورتیوں سے پردہ اٹھانے پہ اگر ہمیں مرد دشمن کا خطاب دیا جاتا ہے تو ہم سوائے کہنے اور سمجھنے والے کی عقل پہ ماتم کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
البتہ یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ جس مرد نے ہمیں پدرسری نظام کی صلیب پہ نصب نہیں کیا، وہ مرد ہمارا باپ تھا اور ان کی جرات و ہمت کو ہم اب تک سلام کرتے ہیں۔ جس شخص سے ہم نے وفا نبھائی ہے، وہ مرد ہمارا شوہر ہے اور جس مرد کو ہم نے پدرسری نظام کی غلاظت سے دور رہنا سکھایا ہے، وہ مرد ہمارا بیٹا ہے!
پدرسری نظام سے نفرت کرنا سیکھیے، آپ کو ہماری بہت سی باتیں سمجھ آ جائیں گی!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر