نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قوم کی بے حسی اور مسائل کا حل||گلزار احمد

کل میں نے ایک کالم لکھا کہ ۔۔قوم میں بے حسی کیسے پیدا ھوتی ھے؟اس کالم کو کچھ دوستوں نے فون پر کچھ نے واٹس ایپ اور فیس بک پر سراہا مگر کہا گیا کہ مسائل کے ساتھ اس کا حل بھی تجویز کرنا چاھئیے

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

۔۔
کل میں نے ایک کالم لکھا کہ ۔۔قوم میں بے حسی کیسے پیدا ھوتی ھے؟اس کالم کو کچھ دوستوں نے فون پر کچھ نے واٹس ایپ اور فیس بک پر سراہا مگر کہا گیا کہ مسائل کے ساتھ اس کا حل بھی تجویز کرنا چاھئیے۔ اب یہ بات بالکل درست ھے کہ عام طور پر ہمارے صحافی بھائی پرابلم اور نقطہ چینیاں بہت کرتے ہیں مگر ان مسائل کو کیسے حل کیا جاۓ ایسی تجاویز بھت کم پیش کی جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی حل بھی پیش کرتے ہیں تو وہی گھسے پٹے جو پہلے ہی بیوروکریسی عمل کر رہی ھوتی ھے اور جو فیل ھو چکے ھوتے ہیں۔۔اصل میں کسی پرابلم کا حل پیش کرنے کے لئیے ریسرچ کرنی پڑتی ھے جس کے لئیے ہم لوگوں کی تربیت نہیں ھے اس لئے صحافت میں ہم ہوائی قلعے بہت بناتے رھتے ہیں جن کا وجود نہیں ہوتا ۔ اب چلتے ہیں گزشتہ روز کے مسئلے پر کہ قوم میں بے حسی کو کیسے دور کیا جاۓ؟ سب سے پہلی بات یہ ھے کہ قوم میں ownership کا احساس پیدا کرنا ھو گا اور وہ تقریروں سے نہیں ہوتا۔ آپ سڑک پر جا رھے ہیں دیکھتے ہیں کسی کسان کا ھرا بھرا کھیت ھے جس کے اندر سڑک پر گزرنے والا بکریوں کا ریوڑ داخل ھو گیا ھے۔ کسان موجود نہیں ھے۔آپ کبھی بھی گاڑی کو روک کر اس ریوڑ کو نہیں ہٹاتے کیونکہ وہ آپ کا کھیت نہیں ھے ۔جب کسان دیکھے گا وہی ڈنڈا اٹھا کر آے گا اور ریوڑ کو نکالے گا۔۔۔ملک افراد سے بنتے ہیں اور تمام افراد پر ان کا حق ہوتا ھے۔ہماری بدقسمتی یہ ھے کہ پچھلے دو سو سال سے پہلے جو لوگ اس سرزمین پر قابض تھے آج بھی ان کی اولاد حکومت کر رہی ھے۔پھر پاکستان بننے کے بعد جتنے حکمرانی کے شعبے ہیں وہ انہی لوگوں کے ہاتھ میں۔ حقوق اور انصاف بھی انہیں کو ملتا ھے ۔آج کے دور میں کونسا پڑھا لکھا مڈل کلاس پاکستانی ھو گا جو بیس سے پچاس کروڑ روپے خرچ کر کے الیکشن لڑے اور اسمبلیوں میں بیٹھے۔ اب جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں ان کے حق میں قوانین راتوں رات بن جاتے ہیں ۔تمام ادارے ان کے ماتحت ہیں۔انکی تعلیم کے ادارے الگ۔۔۔کورس الگ۔۔۔علاج کے ہسپتال الگ۔۔۔رہائش کی کالونیاں الگ۔۔سفر کرنے کی کلاس الگ۔۔ گاڑیوں کے برانڈ الگ۔لباس الگ۔مارکیٹیں الگ۔ مسجدیں ایر کنڈیشن الگ۔تو جب آپ اس ملک میں یہ تفاوت دیکھتے ہیں تو عام آدمی جو دن رات روزی روٹی کے چکر میں پھنسا ہوا ھے وہ قومی سوچ سے بے تعلق ھو جاتا ھے۔ اس کی سوچ محدود ھو جاتی ھے وہ کڑھتا ھے اور سوسائٹی سے بے تعلق سا ھو جاتا ھے وہ جو اچھا کام کر سکتا ھے اس کو بھی نہیں کرتا ۔۔یہ ھے بے حسی!!! ہماری سڑکوں پر گڑھے کھودے گئے ہیں جو زیادہ طور پر گیس کنکشن کی وجہ سے کھودے گئے۔ان سڑکوں پرزیادہ تر لوگ موٹر سائیکل یا چنگچی پر ھوتے ہیں ۔دن رات مریض ہسپتال جا رھے ھوتے ہیں ۔عورتیں ڈیلوری کے لئے رکشوں پر جا رہی ھوتی ہیں جب وہ ان گڑھوں سے گزرتے ہیں تو انکی بیماری سو فیصد بڑھ چکی ہوتی ھے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ میں نے گیس کا کنکشن لگوایا ھے تو گڑھے کو پر کرنا بھی میری ذمہ داری ھے؟ ۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔سارے شھر میں یہی ھو رہا ھے۔۔ایسا کیوں ھے۔۔۔ بے حسی۔۔۔کیونکہ میں نے اس کو اپنی ذمہ داری۔اپنا کھیت نہیں سمجھا ھوا۔۔۔ پچھلے دنوں میونسپل کمیٹی والوں کچھ گڑھے پُر بھی کیے لیکن ہم خود اپنے گھر کے سامنے والا گڑھا پُر نہیں کرتے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ھوں کہ لوگ قتل ھو جانے پر بھی تھانہ کچہری کا رخ نہیں کرتے کیوں؟ ہم نے بجلی گیس فلٹر کے بغیر خوشحال وقت گزارا ھے نلکوں کا پانی ہم ٹوٹی کو منہ لگا کر پیتے تھے اب ہم نے پورے شھر کے گراوںڈ واٹر کو آلودہ کر دیا کیوں؟ شھر و ملک کو اپنا نہیں سمجھا۔۔بجلی کا بل ہمارے گھر آٹھ آنے مہینہ آتا تھا۔ ٹھیک ھے ہمارے پاس سواۓ بلب جلانے کے اور کوئی الیکٹرانک نہیں تھا ۔ آجکل کینیڈا کے شھروں میں درجہ حرارت منفی تیس تک چلا جاتا ھے۔ ہر گھر میں ایک ریگولیٹر لگا ھے سارے گھر کا درجہ حرارت بیس پچیس ھو جاتا ھے۔ سارا کچن بجلی سے چلتا ھے ۔ تمام الیکٹرانک چلتے ہیں بجلی ایک سیکنڈ نہیں بند ھوتی مگر بل افورڈایبل ھے۔ہماری کہانی یہ ھے کہ بجلی ساری دنیا میں ایک سہولت کے طور پر استعمال کی جاتی ھے ہمارے حکمران بجلی کو ووٹ لینے یا سزا دینے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔آجکل اگر آپ نے غلطی سے میٹر لگا رکھا ھے تو واپڈا آپ پر مسلسل جرمانے لگاتا رھے گا ۔اگر آپ نے ڈائرکٹ پورا ٹرانسفارمر بھی لگا لیا تو خیر ھے۔۔ پہلے ہمیں کہا گیا میٹر گھروں سے باھر لگوائیں پھر کہا گیاآپ ڈیجیٹل میٹر لگوا لیں جرمانے نہیں ھونگے جبکہ وہ میٹر 20% تیز بھی ہیں۔۔پھر کیمرے سے ریڈنگ شروع کی تاکہ زیادہ یونٹ نہ دیں۔ اب کھمنبوں پر میٹر لگ رھے ہیں۔ بجلی چوری کا سلسلہ پرائیویٹ پاور پروڈیوسر سے کمیشن لے کر معاہدوں سے شروع ہوا۔۔پاکستان کے پرائیویٹ پروڈیوسرز کی بجلی امریکہ کا امیر ترین شھری بھی نہیں خرید سکتا۔۔ صرف بجلی کی مد میں پورے پاکستان کا بجٹ بھی دے دیا جاۓ پھر بھی سرکلر ڈیٹ ختم نہیں ھو گا ۔یہ بجلی آٹھ آنے یونٹ کی بجاۓ 42 روپے فی یونٹ تک خریدی گئی۔معاھدے بھی خفیہ رکھے گئیے۔۔اس بجلی کے پرائیویٹ پروڈیوسر سے کسی نے رینٹل راجہ کا خطاب پایا کوئی مسٹر ٹین پرسنٹ بنا۔کیوں؟ کہ ہم نے اس کو اپنا ملک نہیں سمجھا اور ڈبو دیا۔ ملک کی مارکیٹیں ۔روزگار لوڈشیڈنگ نے تباہ کر کے رکھ دیں۔اسی بجلی کے معاہدوں سے ِسوس بنک بھرے گئے اور ملک کو بیچ دیا گیا۔۔ اس بجلی کی وجہ سے ایک آذاد قوم کو افریکی غلام بنایا دیا گیا۔ حالانکہ پاکستان کے پاس دریاوں ۔نہروں سے اتنی بجلی بنائی جاسکتی تھی کہ ہر گھر مفت فراہم کی جاتی۔ غریب لوگ تو دو سو روپے کلو والی LPG گیس اور 500روپے من لکڑی خرید کر بھی جی رھے تھے۔۔لالٹین اور چراغ جلا کر بھی زندگی اوکھی سوکھی چل رہی تھی۔ یہ بجلی کے لاکھوں روپے کے جرمانوں کی برکت ھے کہ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔۔اگر بجلی پانچ چھ روپے یونٹ کر دی جاۓ تو کوئی بھی چوری کا نہیں ںسوچے گا مگر سولہ ھزار تنخواہ کے مزدور پر پچاس ھزار جرمانہ ۔ ۔۔۔24 میں آٹھ گھنٹے بجلی دے کر غریب کا خون چوسا جاتا ھے۔۔۔۔۔ IMF بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کا کہ رہا ھے۔ حکمرانوں نے تیس چالیس ھزار ارب کے قرضے لے کر ہمیں وہاں کھڑا کر دیا کہ ہم اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتے۔ اب اگر ان تمام عوامل کا عوام اور حکومت ملکر علاج نہ ڈھونڈیں تو بے حسی جاری رھے گی۔حل یہ ھے۔
when you complain you make yourself victim…Leave the situation..change the situation… or accept it…all else is madness.
امریکہ۔کینیڈا۔ برطانیہ۔ملائیشیا۔ سنگاپور میں ۔بہت سی قومیں ۔بہت سے مذاھب اکٹھے رہ سکتے ہیں؟ یہاں مسلمانوں کے خود اندر فرقہ واریت ۔دھشت گردی کیوں ھے؟جب لوگوں میں اتحاد نہیں ھوگا تو یہی حکمران۔یہی حالات برقرار رہیں گے۔ یہ ہمارا ملک ھے اس کو ہم نے ٹھیک کرنا ھے باھر سے کوئی نہیں آے گا۔
Always remeber…I m responsible..
جب ہم ملک کو own نہیں کرینگے تو ملک کیسے ٹھیک ھو گا۔۔ اتحاد و اتفاق تو ہم نے کرنا ھے اتحاد کرنے کے لئے IMF سے قرضہ تو نہیں لینا؟ آج آپ اتحاد کریں کل سے ترقی کا سفر شروع ۔۔یہی فارمولا دوسرے ملکوں نے اپنایا ھے جنہیں میں جا کر دیکھ آیا ھوں۔
تصاویر ہمارے دامان وسیب کی ہیں۔

About The Author