حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر جاوید سید
تحریک انصاف نے اعجاز چودھری، عون عباس بپی، فلک ناز چترالی، ڈاکٹرزرقا، سیف اللہ نیازی جیسے دیرینہ کارکنوں کو سینیٹ کیلئے خیبرپختونخوا اور پنجاب سے اُمیدوار بنایا، باقی کچھ سرمایہ دار ہیں، کچھ سیاسی مسافر، ایک بیرونی تحفہ اور جناب حفیظ شیخ، فیصل واؤڈا کو نااہلیت سے بچانے کیلئے سینیٹر بنوایا جارہا ہے۔ بابر اعوان، احتساب والے مشیر، زلفی بخاری اور فردوس عاشق اعوان نظرانداز ہوئے۔ کیوں؟ اس کی وجہ سبھی جانتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس بار ”فرشتوں” کیساتھ کارکنوں کو بھی حق دیا گیا۔
پیپلزپارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی نشست سے پی ڈی ایم کے اُمیدوار ہیں۔ تحریک انصاف نے سرائیکی وسیب کو ایک ٹکٹ دی۔ عون عباس بپی تحریک کے پرانے کارکن ہیں، اس وقت بیت المال کے سربراہ ہیں۔ پی پی پی کے پاس پنجاب میں صرف آٹھ نشستیں ہیں، اس سے شکوہ کیسا البتہ سول سپرمیسی کی علمبردار نون لیگ مشاہد اللہ کو تو نہیں بھولی لیکن سرائیکی وسیب کو اس نے یکسر نظرانداز کیا۔
خیال تھا کہ وہ بہاولپور سے کس کو ٹکٹ دے گی لیکن یہ خیال ہی رہا۔ پی پی پی نے پلوشہ خان کو سندھ سے سینیٹر بنوانے کیلئے انتظامات کئے، کاغذات نامزدگی داخل ہو رہے ہیں۔ پی پی پی نے الیکشن کمیشن سے کاغذات نامزدگی کی تاریخ میں توسیع کی درخواست کی، حقارت سے مسترد کر دی گئی لیکن جونہی تحریک انصاف نے یہی درخواست کی، سارا الیکشن کمیشن باادب باملاحظہ ہوگیا
کیا الیکشن کمیشن کا کام ہر دور کی حکومت کے سہولت کار کے طور پر فرائض ادا کرنا ہے یا قوانین پر عمل؟
فیصل واؤڈا کے معاملے میں الیکشن کمیشن نے جو سہولت کاری کی اس کے بعد اس ادارے پر اعتماد کون کرے گا۔
بہرطور یہ الیکشن کمیشن کے سوچنے کے کام ہیں۔
شبلی فراز اور محسن عزیز دوبارہ پی ٹی آئی کے اُمیداور بن گئے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر بھی اکاموڈیٹ ہوئیں۔ سابق وزیرقانون اور بزرگ سیاستدان ایس ایم ظفر کے صاحبزادے بیرسٹر علی ظفر بھی پی ٹی آئی کے اُمیدوار ہوگئے۔
اس خاندان کے لوگوں کی خوبی یہی ہے کہ ہر دور کی حکومت (فوجی وغیر فوجی دونوں) سے نتھی ہو جاتے ہیں اور فیض بھی پاتے ہیں۔
چلیں چھوڑیں!
کچھ حق ہر فن مولا قسم کے لوگوں اور خاندانوں کا بھی بنتا ہے۔
جے یو آئی نے مولانا عطاء الرحمن کو ہی دوبارہ اُمیدوار بنایا، سندھ میں پیپلزپارٹی نے محترمہ فریال تالپور کو اسی صوبہ سے پی پی نے اپنے پرانے اورمعروف ترقی پسند رہنما تاج حیدر کو بھی اُمیدوار بنایا ہے۔ شیریں رحمن اور سلیم مانڈوی والا بھی دوبارہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، خواجہ کریم اور شہادت علی اعوان بھی پی پی پی کے اُمیدوار ہیں۔
شہادت علی اعوان کے نام پر پی پی پی کے کچھ اپنے ہمدردوں اور کارکنوں نے سوشل میڈیا پر ادہم مچا رکھا ہے
ان چند مقدمات کا حوالہ دیا جارہا ہے جن میں وہ وکیل تھے یعنی اب کسی جماعت سے تعلق رکھنے والے قانون دان کو جماعت سے پوچھ کر یا جماعت کے اندر موجود سوشل میڈیا مجاہدین کی اجازت سے ہی مقدمہ لینا چاہئے۔
ان بااصول سیاسی کارکنوں کو اپنی اپنی جماعتوں سے یہ پوچھنا چاہئے کہ دیئے گئے ٹکٹوں میں کارکنوں کا تناسب کتنا ہے لیکن جو لوگ تین سے پانچ منٹ میں ہوئے پارٹی الیکشن پر منہ بند کر کے بیٹھے رہے اور کچھ اسے جمہوریت کا حسن بنا کر پیش کر تے رہے وہ اب چیں بجبیں ہو رہے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے پی ڈی ایم کے متفقہ اُمیدوار ہیں، عددی طور پر پی ڈی ایم کے پاس تحریک انصاف اور اتحادیوں کے مقابلے میں 13ووٹ کم ہیں۔ اسلام آباد کی نشست اصل میں پی پی پی کا امتحان ہے جس نے عدم اعتماد کی تجویز دی تھی، سابق وزیراعظم گیلانی ظاہر ہے قربانی کا بکرا بننے کیلئے اُمیدوار نہیں بنے، کچھ انہوں نے سوچا ہوگا کچھ ان کی جماعت اور پی ڈی ایم نے بھی۔
اصل بات یہ ہے کہ اگر جناب گیلانی اسلام آباد سے سینیٹ کی سیٹ جیت جاتے ہیں تو یہ ایک قسم کا حکومت پر عدم اعتماد ہوگا۔
یوسف رضا گیلانی ملتان سے تعلق رکھتے ہیں، سابق وزیراعظم ہیں، اب ان کا ووٹ اسلام آباد میں رجسٹرکروا لیا گیا ہے، ان کا مقابلہ اپنے ہی سابق اور موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے ہوگا، دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
پی پی پی کی قیادت پر اُمید ہی نہیں بلکہ پُرجوش بھی ہے بعض اطلاعات (گو ان اطلاعات کی جناب گیلانی تردید کر چکے) کے مطابق سید یوسف رضا گیلانی کی ماموں زاد بہن کے شوہر جہانگیر ترین کے گروپ میں شامل قومی اسمبلی کے7ارکان گیلانی کو ووٹ دیں گے، ایسا ہے تو پھر گیلانی کو مزید6ووٹ درکار ہوں گے۔
فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کیلئے پارلیمانی بورڈ میں ماسوائے وزیراعظم کے ایک بھی دوسرا رکن اس بات کا حامی نہیں تھا کہ انہیں پنجاب سے خواتین کی نشست پر سینیٹر بنوا لیا جائے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ مخالفت شبلی فراز اور فواد چودھری نے کی، کیوں؟ وجہ یہی ہے کہ اگر وہ سینیٹر بنتیں تو پھر مرکز میں واپسی لازمی ہو جاتی، یہ ان دونوں کو قبول نہیں تھا۔
فرحت اللہ بابر کو پی پی پی نے خیبرپختونخوا سے ایک بار پھر اُمیدوار بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اگر اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہو کر سینیٹ الیکشن میں حصہ نہ لیا تو ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہمارے محبوب وزیراعظم نے ایک بار پھر فرمایا ہے کہ5سالوں میں جادوئی تبدیلی ممکن نہیں، یہ مدت بڑے ترقیاتی منصوبوں کیلئے کم ہے۔
جان کی امان ہو تو عرض کروں، پچھلے اڑھائی سال میں مہنگائی کی مجموعی شرح میں250فیصد، غربت میں 3فیصد اضافے کیساتھ سوا دو کروڑلوگوں کی بیروزگاری کے علاوہ کوئی بڑا منصوبہ تھا جس کیلئے مدت کم پڑگئی؟
وزیراعظم پارلیمانی نظام، مدت حکومت اور چند دوسرے معاملات پر اکثر مختلف انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مؤقف درست ہے تو دو طریقے ہیں، پہلا یہ کہ ریفرنڈم کروا لیا جائے، دوسرا یہ کہ اسمبلیاں توڑ کر عوام کے پاس چلے جائیں اور اپنا پروگرام پیش کریں۔ عوام دوراقتدار کی مدت بڑھانے کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، تو بسم اللہ ورنہ اسی پر گزارہ کریں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ5سال کی مدت کم نہیں ہوتی، اصل چیز اہلیت اور جذبہ ہے جبکہ یہاں اڑھائی سال چور چور کا شور مچاتے گزار دیئے گئے، حقیقی فرائض پر توجہ نہیں دی گئی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر